رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: لندن اولمپکس اور امریکہ میں ہتھیاروں کی بہتات


تاریخ میں پہلی بار اولمپکس میں شریک تمام ممالک، جن کی تعداد 200 سے زائد ہے، کے دستوں میں خواتین ایتھلیٹس شامل ہیں

اس وقت دنیا بھر کی نظریں برطانیہ کے شہر لندن پر جمی ہیں جہاں 'اولمپکس 2012ء' کا آغاز ہوچکا ہے۔ کھیلوں کی تاریخ کے ان سب سے بڑے مقابلوں کے آغاز کے موقع پر صفِ اول کے تمام امریکی اخبارات نے خصوصی مضامین اور اداریے شائع کیے ہیں۔

please wait

No media source currently available

0:00 0:04:30 0:00


اخبار 'لاس اینجلس ٹائمز' نے اپنے اداریے میں 'لندن اولمپکس' میں خواتین ایتھلیٹس کی بھرپور شرکت کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک تاریخی فتح قرار دیا ہے۔

اخبار کے مطابق تاریخ میں پہلی بار اولمپکس میں شریک تمام ممالک –جن کی تعداد 200 سے زائد ہے – کے دستوں میں خواتین ایتھلیٹس شامل ہیں ۔ اور یہ بھی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ اولمپکس میں شرکت کرنے والے امریکی ٹیم میں خواتین کھلاڑیوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔

'لاس اینجلس ٹائمز' لکھتا ہے کہ برونائی، قطر اور سعودی عرب نے پہلی بار اپنے ہاں کی خواتین ایتھلیٹس کو 'اولمپکس' میں شرکت کی اجازت دی ہے۔ قطر کی ایک خاتون ایتھلیٹ اولمپک کی افتتاحی تقریب میں اپنے ملک کا پرچم اٹھائے قومی دستے کی رہنمائی بھی کریں گی جب کہ امریکی دستے کی قیادت بھی ایک خاتون ایتھلیٹ کو سونپی گئی ہے۔

'لاس اینجلس ٹائمز' نے اس پیش رفت کو دنیا بھر کی خواتین اور 'انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی' کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے جس نے کھیلوں کے مقابلوں میں خواتین کی شرکت کی زبردست مہم چلائی اور بالخصوص سعودی حکومت کو آمادہ کیا کہ وہ خواتین کو 'لندن اولمپکس' میں شرکت کی اجازت دے۔
برونائی، قطر اور سعودی عرب نے پہلی بار اپنے ہاں کی خواتین ایتھلیٹس کو 'اولمپکس' میں شرکت کی اجازت دی ہے


اخبار نے لکھا ہے کہ لندن اولمپکس میں مسلمان خواتین بھی دیگر ایتھلیٹس کے شانہ بشانہ مختلف مقابلوں میں حصہ لیں گی اور دنیا پر اپنی صلاحیتوں کا سکہ جمائیں گی۔

لیکن درحقیقت 'اولمپکس' میں شرکت کرنے والی کئی مسلمان خواتین نے ٹرائل مقابلوں کےذریعے اس ایونٹ کے لیے 'کوالیفائی' نہیں کیا بلکہ وہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی یا متعلقہ کھیلوں کی انجمنوں کی خصوصی دعوت پر ان عالمی مقابلوں میں شریک ہورہی ہیں۔

'لاس اینجلس ٹائمز' لکھتا ہے کہ گو کہ یہ پیش رفت بھی بہت بڑی ہے ان خواتین کو ان کی حکومتوں نے 'اولمپکس' میں شرکت کی اجازت دی لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 'اولمپکس' میں خواتین کی مساوی شرکت کا خواب ابھی ادھورا ہے۔

اخبار کے اداریہ نویس کے بقول متعلقہ حکام اور حلقوں کو اس ضمن میں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں تاکہ خواتین کو کھیلوں کی دنیا میں مردوں کے مساوی مواقع میسر آئیں اور انہیں آئندہ کسی کی خصوصی دعوت یا رعایت کے بجائے خالصتاً اپنی اہلیت پر 'اولمپکس' میں شرکت کا موقع مل سکے۔


امریکی شہریوں کی ہتھیاروں سے محبت

گزشتہ ہفتے امریکی ریاست کولاراڈو میں ایک فلم پریمیئر میں فائرنگ سے 12 افراد کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں چھوٹے اسلحے کی فروخت پر پابندی لگانے یا نہ لگانے سے متعلق بحث میں ایک بار پھر شدت آگئی ہے۔

امریکہ میں یہ تاثر عام ہے کہ اسلحہ فروخت کرنے والوں کی قومی انجمن 'نیشنل رائفل ایسوسی ایشن' امریکی سیاست دانوں پر اثر انداز ہو کر ملک میں اسلحے کی فروخت پر پابندی کی کوششوں کو سبوتاژ کرتی آئی ہے۔

لیکن اخبار 'بالٹی مور سن' نے اپنے ایک مضمون میں اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ میں 'گن کنٹرول' کی کوششوں کی راہ میں امریکی سیاست دان نہیں بلکہ خود عوام مزاحم ہیں جن کی اکثریت اخبار کے بقول اسلحے کی آزادانہ خرید و فروخت کی حامی ہے۔

اخبار کے مضمون نگار نے امریکہ میں 'گن کنٹرول' کے لیے ماضی میں کی جانے والی قانون سازی کی مثالیں دیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی سیاست دانوں نے کئی بار ملک میں اسلحے کی خرید و فروخت کو قائدے اور ضابطے میں لانے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔

'بالٹی مور سن' لکھتا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اسلحے پرکنٹرول کی کوششوں کے بارے میں امریکی عوام کی حمایت میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اخبار کےمطابق 1990ء میں کیے جانے والے ایک 'گیلپ سروے' میں 78 فی صد امریکیوں نے اسلحے کی خرید و فروخت کے لیے سخت قوانین بنانے کی حمایت کی تھی لیکن گزشتہ برس کیے گئے گیلپ ہی کے ایک اور سروے کے مطابق اب یہ حمایت محض 43 فی صد رہ گئی ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ امریکی عوام کی بندوقوں سے اس بڑھتی ہوئی محبت کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکی معاشرے میں ہلاکت خیز جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے۔
امریکہ میں 'گن کنٹرول' کی کوششوں کی راہ میں امریکی سیاست دان نہیں بلکہ خود عوام مزاحم ہیں جن کی اکثریت اسلحے کی آزادانہ خرید و فروخت کی حامی ہے
بالٹی مور سن


بیس برس قبل تک امریکہ میں قتل کی شرح خاصی بلند تھی اور اس لیے لوگ چاہتے تھے کہ مجرموں کی اسلحے تک رسائی مشکل بنائی جائے۔ لیکن اب چوں کہ جرائم اور قتل کی شرح میں نمایاں کمی آچکی ہے، امریکیوں کی اسلحے سے محبت پھر سے عود آئی ہے۔

'بالٹی مورسن' لکھتا ہے کہ امریکیوں میں 'گن کنٹرول' کی بڑھتی ہوئی مخالفت کی ایک اور وجہ حکومت پر عدم اعتماد بھی ہے۔ گزشتہ برس 'گیلپ' ہی کے ایک سروے سے پتا چلا تھا کہ امریکی عوام کی نصف تعداد وفاقی حکومت کو عام آدمی کے حقوق اور آزادیوں کے لیے خطرہ سمجھتی ہے ۔

اخبار کے مطابق عدم اعتماد کی اس فضا کے باعث امریکی شہری 'گن کنٹرول' کے لیے کی جانے والی کوششوں کو بھی شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں اپنے بنیادی آئینی حقوق پر ڈاکہ سمجھتے ہیں۔
XS
SM
MD
LG