رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: افغانستان میں امریکی کردار برقرار رکھنا ہوگا


اگلے برس یہ سوال اُٹھے گا کہ آیا طالبان، جنہیں امریکی فوجوں نے کمزور ضرور کیا ہے لیکن ہرایا نہیں، حکومت کا تختہ اُلٹنے اور اپنے اعتقادات کو دوبارہ مسلّط کرنے کی کوشش کریں گے اور کیا پاکستان کا کردار اچھا ہوگا یا پُھوٹ کا؟

ایک سابقہ کُہنہ مشق امریکی سفارت کار نکولس برنزکہتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ بے شک ختم ہونی چاہیئے لیکن اُسے اپنے حال پر نہیں چھوڑ دینا چاہیئے۔ اخبار بوسٹن گلوب میں ایک مضمون میں برنز رقم طراز ہیں کہ پچھلے ہفتے ایک جوان امریکی سفارت کاراین سمینڈنگ ہاف کا افغانستان میں جو قتل ہوا ہے اُس سے اس حقیقت کی یاد دہانی ہوتی ہے کہ امریکہ نے افغانستان کی جنگ میں کتنا کُچھ کھویا ہے۔ اس خاتُون کو محض 25 سال کی عمر میں موت کی نیند سُلادیا گیا۔ فارن سروس اورفوج میں اپنے باہمّت رفقائے کار کی طرح اُس نے بھی رضاکارانہ طور پرافغان عوام کی امداد کرنے کا بیڑا اُٹھایا تھا تاکہ وُہ عشروں سے جاری جنگ کو اختتام کو پہنچا سکیں۔

برنز کہتے ہیں کہ ہارورڈ میں افغان اور امریکی عہدہ داروں، صحافیوں، طلبہ اور اساتذہ کی جو کانفرنس ابھی ابھی ہوئی ہے۔ اُس میں موجود تقریباً تمام شرکاء نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ میدان جنگ میں یہ لڑائی نہیں جیتی جا سکتی۔ اس کے بدلے کانفرنس سے یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ افغانستان کو اُسی عبوری دور سے گُذرنا پڑے گا۔ جس کی مدد سے ویت نام میں بالآخر جنگ بندی عمل میں آئی تھی۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ بندی اور بالآخرمذاکرات کے ذریعے ایک حل نکالا جائے۔ بیشتر جنگوں کا خاتمہ اِسی طرح یعنی مُذاکرات کی میز پر ہوتا ہے۔

اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ سنہ 2001 میں امریکی حملے کے وقت کے مقابلے میں اس وقت افغانستان کی معاشرتی اور اقتصادی حالت کہیں بہتر ہے۔ انسان کی اوسط عُمر 42 سے بڑھ کر 60 ہو گئی ہے۔ سکول جانے والے طلبہ کی تعداد 9 لاکھ سے بڑھ کر 90 لاکھ ہو گئی ہے۔ جن میں سے 40 لاکھ لڑکیا ں ہیں۔ پھر نئی سڑکیں، نئے پُل اور بند تعمیر ہوئے ہیں۔ موبائیل فونوں کا استعمال عام ہو گیا ہے اور افغان لیڈرتجارت کے لئے ایک نئی شاہراہِ ابریشم کے خواب دیکھ رہے ہیں، جو اُنہیں جنوب اور وسط ایشیا میں پڑوسیوں کے ساتھ ملائے گی۔ لیکن یہ سب کُچھ اگلے سال مشکوک ہو سکتا ہے۔ جب امریکہ اور نیٹو کی بیشتر فوجیں وُہاں سے نکل آیئں گے۔

حامد کرزئی کی جگہ کوئی اور صدر ہوگا اور اربوں ڈالروں کی سالانہ غیر ملکی امداد بند ہو جائے گی۔ اس وقت یہ سوال اُٹھے گا کہ آیا طالبان، جنہیں امریکی فوجوں نے کمزور ضرور کیا ہے لیکن ہرایا نہیں، حکومت کا تختہ اُلٹنے اور اپنے اعتقادات کو دوبارہ مسلّط کرنے کی کوشش کریں گے اور کیا پاکستان کا کردار اچھا ہوگا یا پُھوٹ کا؟ چنانچہ برنز کہتے ہیں کہ آنے والے مہینوں میں امریکہ کو بعض اہم فیصلے کرنے ہونگے۔

اوبامہ انتظامیہ ایک نئی حکمت ِعملی پر غور کر رہی ہے، جس کے تحت اگلے سال کے بعد امریکی فوج کی موجودگی ہوگی، لیکن نہایت قلیل ۔۔۔ جو القاعدہ سے نمٹے گی اور افغان فوج کی تربیت کرے گی۔ سفارتی حکمتِ عملی کو بروئے کارلانے کے اس مرحلے میں دو باتوں پر زور ہوگا۔ ایک تواقتصادی امداد پر اور کابل حکومت اور طالبان قیادت کے درمیان مذاکرات کے آغاز پر۔ اور اچھا یہ ہوگا کہ افغانستان کے طاقتور پڑوسیوں، روس، چین، ہندوستان اور ایران سے زیادہ سیاسی اور مالی امداد کا مطالبہ کیا جائے۔

مصنّف کا خیال ہے کہ اگرامریکہ نےعراق کی طرح افغانستان سےمکمّل طور پر بوریا بستر باندھ کر روانگی اختیار کی تو کرپشن کے لئے بدنام کابل حکومت کا ڈھانچہ آناً فاناً پاش پاش ہو جائے گا۔ البتہ اس نئی امریکی حکمت عملی کی بدولت عام افغان شہری کو آگے بڑھنے کا موقعہ ملےگا۔ برنز کہتے ہیں کہ امریکہ نے ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے افغانستان کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے، اس لئے اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے یہ اُس کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان کا ساتھ دے ۔ اور افغانوں کی اکثریت کا بھی یہی منشاء ہے۔۔

شکاگو سن ٹائمز ایک اداریئے میں کہتا ہے کہ حالیہ دنوں میں یہ خبر سُن کر شکاگو کے شہریوں کوانتہائی دُکھ ہوا کہ اُس کے دو مثالی نوجوانوں کو دُنیا کے دو مختلف علاقوں میں بلاوجہ بےدردی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ہے۔

افغانستان میں پچیس سالہ این سمیڈنگ ہاف کو ایک خود کُش کار دھماکے میں ہلاک کیا گیا، جب وُہ تعلیم کے لئے ترسے ہوئے سکول کے بچوں کے لئے نصاب کی کتابیں لے کر روانہ ہوئی تھیں۔ جب کہ نیو اورلیئینز میں 18 سالہ جوزیف مسن برگ کو سڑک پر گولی مار کر ہلاک کیا گیا جب اُس نے امیری کور کی تنظیم کے تحت کم آمدنی والے شہریوں کے لئے رضاکارانہ خدمت کا آغاز ہی کیا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ مس سمیڈنگ ہاف نے جانز ہاپکنز یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد فارن سروس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اور جب وُہ سکُول ہی میں تھی تو اُس نے بالٹی مور سے سین فرانسسکو تک ساڑھے تین ہزار میل کی مُسافت سائیکل پر طے کی تھی تاکہ سرطان کی تحقیق کے لئے چندہ اکٹھا کیا جائے۔ اُس نے رضاکارانہ طور پر متعدّد خطرناک مقامات میں کام کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں، جن میں افغانستان شامل ہے جہاں اُس نے حال ہی میں وزیرِخارجہ جان کیری کے گائیڈ کی حیثیت سے کام کیا۔

اخبار کہتا ہے کہ مس سمینڈنگ ہاف اور مسٹرمسن برگ، دونوں کے کارنامے شاندار تھے لیکن ان کی بہت سی امنگیں پوری نہ ہوسکیں۔ دونوں نے اپنا معمول کا کام چھوڑکر اس دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ لیکن اُن کا یہ کام ادُھورا رہ گیا اور یہ کام ایسا ہے، جس کی کوئی انتہا ہی نہیں۔
XS
SM
MD
LG