رسائی کے لنکس

امریکی صدر کا اسرائیلی جاسوسی کے الزام پر ردِ عمل


امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ یہ ایک ’’مضحکہ خیز بات‘‘ ہے کہ کانگریس کو ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بارے میں آگہی حاصل کرنے کے لیے ایک ’’غیر ملکی حکومت‘‘ پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے۔

صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ کانگریس، اسرائیل اور دنیا بھر میں اپنے حلیفوں کو ایران کے ساتھ جوہری معاملے پر مذاکرات میں پیش رفت کے بارے میں آگاہ کرتا رہا ہے۔

صدر اوباما نے یہ بات منگل کو ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں ان مذاکرات کے حوالے سے اسرائیل کی طرف سے امریکہ کی جاسوسی کی ایک خبر کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہی۔

پیر کو امریکی روزنامے ’وال سٹریٹ جرنل‘ نے کہا تھا کہ اسرائیل امریکہ اور پانچ دیگر عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ بند کمرے میں ہونے والے مذاکرات کی جاسوسی کرتا رہا ہے۔

اخبار نے دعویٰ کیا کہ وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ حکام اس جاسوسی سے باخبر تھے اور اسرائیل ان مذاکرات کی خفیہ معلومات امریکی کانگریس کے اراکین اور دیگر اعلیٰ حکام کو فراہم کرتا رہا ہے تاکہ ان کی طرف سے ایران کے ساتھ معاہدے کی حمایت کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔

صدر اوباما نے کہا کہ وہ ’’انٹیلیجنس کے حساس معاملات پر صحافیوں سے بھرے ایک بڑے کمرے میں تبصرہ نہیں کریں گے۔‘‘ مگر ان کے مطابق ایران کے ساتھ کسی قسم کے جوہری معاہدے کی صورت میں’’سارے عمل کے بارے میں خاصی شفافیت ہو گی۔‘‘

امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ یہ ایک ’’مضحکہ خیز بات‘‘ ہے کہ کانگریس کو ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بارے میں آگہی حاصل کرنے کے لیے ایک ’’غیر ملکی حکومت‘‘ پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے اکتوبر 2013 سے اب تک کانگریس کو زیادہ سے زیادہ یا شاید کسی بھی اور مسئلے سے زیادہ ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بارے میں بریفنگ دی ہے۔‘‘

جاسوسی کا الزام ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایران کے ساتھ مذاکرات ایک نازک موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔

فریقین نے معاہدہ طے کرنے کے لیے 31 مارچ کی حتمی تاریخ مقرر کر رکھی ہے جس میں اب بہت کم وقت باقی ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے جمعرات کو سوئیٹزرلینڈ واپس پہنچ رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG