رسائی کے لنکس

صدارتی امیدواروں کی انتخابی مہم میں تیزی


صدارتی امیدواروں کی انتخابی مہم میں تیزی
صدارتی امیدواروں کی انتخابی مہم میں تیزی

امریکہ کی وسط مغربی ریاست آیووا کے ریپبلیکن ووٹرز چھ ہفتوں میں اپنے پارٹی کا کاکس منعقد کریں گے ۔ صدارت کے لیے ریپبلیکن پارٹی کے امیدواروں کے درمیان ووٹنگ کا یہ پہلا مقابلہ ہوگا ۔ اگرچہ اب پارٹی کے کاکس کا وقت قریب آ گیا ہے، لیکن صدارت کے لیے نامزدگی کی صورتِ حال اب بھی بہت الجھی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔

صدارت کے لیے ریپبلیکن امیدواروں کی بیشتر توجہ اب دو اہم مقابلوں پر ہوگی : تین جنوری کا ریاست آیووا کا کاکس، اور 10 جنوری کا ریاست نیو ہمپشائر کا پرائمری انتخاب ۔ اخبار یو ایس اے ٹوڈے اور گیلپ تنظیم کے تازہ ترین قومی جائزے کے مطابق، امریکی ایوانِ نمائندگان کے سابق اسپیکرنیوٹ گنگرچ کی مقبولیت میں اچانک اضافہ ہوا ہے ، 22 فیصد ریپبلیکن ووٹرز ان کے حامی ہیں اور یوں اب وہ پہلے درجے پر پہنچ گئے ہیں۔

ریاست میسا چوسٹس کے سابق گورنر مٹ رومنی کو ان سے کچھ ہی کم یعنی 21 فیصد ریپبلیکن ووٹرز کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے بعد ریاست جارجیا کے بزنس مین ہرمین کین کا نمبر ہے جن کی مقبولیت کی شرح 16 فیصد ہے اور آخر میں ریاست ٹیکسس کے کانگریس مین رون پاول ہیں جنہیں نو فیصد ریپبلیکن ووٹرز پسند کرتے ہیں۔ بقیہ تمام امیدوار وں کی شرح مقبولیت نو فیصد سے کم ہے ۔

روتھنبرگ پولیٹیکل رپورٹ ایک غیر جانبدار سیاسی نیوز لیٹر ہے۔ اس کے ایڈیٹر اور پبلشر اسٹیورٹ روتھنبرگ کہتے ہیں’’اس ریپبلیکن مقابلے میں اب تک بہت زیادہ انتشار رہا ہے اور اس کے بارے میں پیشگوئی کرنا انتہائی مشکل ہے۔ یہ بات بہر حال کُھل کر سامنے آ گئی ہے کہ ریپبلیکن پارٹی کے ایک چوتھائی لوگ مٹ رومنی کے حامی ہیں، اور بقیہ تین چوتھائی ان کے بالکل قریب آنا نہیں چاہتے۔‘‘

ابھی کچھ دن پہلے تک رومنی کے سب سے بڑے حریف ہرمن کین تھے۔ لیکن جب انہیں 1990 کی دہائی کے دور کے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات کا جواب دینا پڑا ، تو پانسہ پلٹ گیا۔ کین کو اس وقت بھی خجالت کا سامنا کرنا پڑا جب خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے،چند لمحوں کے لیے ان کے حافظے نے ان کا ساتھ نہیں دیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب ان سے لیبیا کے بارے میں صدر براک او باما کی پالیسی پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تھا۔ رائے عامہ کے جائزوں میں کین کی مقبولیت میں کچھ کمی آئی ہے لیکن اپنی انتخابی مہم میں وہ اب بھی پُر اعتماد ہیں۔

’’کیا آپ جانتے ہیں کہ بعض لبرلز کو کس بات پر غصہ آتا ہے، اور میرے بعض حریف کس بات پر غصے میں آ جاتےہیں؟ گذشتہ دو ہفتوں میں انھوں نے مجھ پر کتنا کوڑا کرکٹ پھینکا ہے، اور میں اب بھی مسکرا رہا ہوں اور میرے جوش و جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔‘‘

اے بی سی نیوز کے سیاسی تجزیہ کار میتھیو ڈوئڈ کہتے ہیں کہ حالیہ ہفتوں میں کین کی مقبولیت کو نقصان پہنچا ہے ۔ رائے عامہ کے جائزوں میں نیوٹ گنگرچ کو جو عروج ملا ہے، اس کی ایک وجہ یہی ہے۔’’میرا خیال ہے کہ کین کی چمک دمک ماند پڑ گئی ہے، اور اب تک گرمیوں میں جو ہنگامہ ہوتا رہا ہے، اس کے بعد اب یہ مقابلہ دو امیدواروں نیوٹ گنگرچ اور مٹ رومنی کے درمیان رہ گیا ہے۔‘‘

ریاست آیووا کے ریپبلیکن ووٹروں کے ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ کین، مٹ رومنی، گنگرچ اور پاول سب چوٹی کے امیدوار ہیں، اور ان میں جس کسی کو آیووا میں فتح ملی، اس کی پوزیشن بہت مضبوط ہو جائے گی ۔ لیکن بلومبرگ نیوز کے ایک سروے کے مطابق، 60 فیصد ریپبلیکنز جو آیووا کاکس میں ووٹ دینے کا ارادہ کر رہے ہیں، اب بھی اپنی رائے تبدیل کر سکتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مقابلہ کتنا غیر یقینی ہے ۔

تجزیہ کار روتھنبرگ کہتے ہیں کہ ریپبلیکنز میں نامزدگی کی دوڑ کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا اب بھی بہت مشکل ہے کیوں کہ بہت سے قدامات پسند ریپبلیکنز کو اب بھی مٹ رومنی کی حمایت کرنے میں تامل ہے ۔’’ان کے خیال میں وہ قدامت پسند نہیں ہیں۔ وہ ہر وہ بات کہنے کو تیار ہو جائیں گے جو آپ ان سے سننا چاہتے ہیں، یا ان کے خیال میں آپ سننا چاہتےہیں۔ اس خیال سے ووٹروں کو پریشانی ہوتی ہے ۔ اگر رومنی کسی طرح وائٹ ہاؤس میں پہنچ جاتےہیں، تو انہیں یقین نہیں کہ ان کا ایجنڈا وہی ہوگا جو ووٹرز واقعی چاہتےہیں۔‘‘

آیووا کے کاکسوں سے وہ عمل شروع ہو جائے گا جس کے ذریعے ریپبلیکنز اپنے اس امید وار کو نامزد کریں گے جس کا مقابلہ نومبر 2012 میں صدر اوباما سے ہوگا۔

XS
SM
MD
LG