رسائی کے لنکس

نئے سیاسی تناظر میں امریکہ اور روس کے تعلقات


نومنتخب روسی صدر پوٹن اور وزیراعظم میدویدف
نومنتخب روسی صدر پوٹن اور وزیراعظم میدویدف

سابق وزیرِ اعظم ولادیمر پوٹن، روس کے نئے صدر ہیں۔ انھوں نے چند ہفتے پہلے دمتری میدویدف کی جگہ لی ہے، جنھوں نے اب وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھال لیا ہے ۔ امریکہ میں آج کل صدارتی انتخاب کی مہم چل رہی ہے جس میں موجودہ صدر براک اوباما کا مقابلہ ریپبلیکن امیدوار مٹ رومنی سے ہے ۔ دونوں ملکوں میں صدارتی انتخابات کے تناظر میں، امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات کی کیفیت کیا ہے، اس بارے میں وائس آف امریکہ کے نامہ نگار آندرے ڈی نیسنیرا کی رپورٹ۔

نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے رابرٹ لیگوولڈ سمیت بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان تعلقات میں آ ج کل کوئی بڑی تبدیلی نہیں آ رہی ہے ۔’’ لیکن کچھ بدگمانیوں کے سائے موجود ہیں۔ اس کی ایک وجہ امریکہ میں سیاسی تبدیلیوں کے گرد غیر یقینی کی کیفیت ہے ۔ یہ انتخاب کا سال ہے اور یہ بات واضح نہیں ہے کہ صدارتی انتخاب کون جیتے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اس کیفیت سے متاثر ہو رہے ہیں۔ صدارت کے عہدے پر پوٹن کی واپسی سے بھی مزید بد گمانیاں پیدا ہو رہی ہیں کیوں کہ مغرب میں، امریکہ میں اور میڈیا میں ان کا تاثر منفی ہے ۔‘‘

روس میں صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران، مسٹر پوٹن نے امریکہ کے خلاف خوب بیان بازی کی۔ ماضی میں ان کا یہ ہتھکنڈا کامیاب رہا ہے ۔ لیکن لیگوولڈ کہتے ہیں کہ اس قسم کی باتوں کے منفی نتائج نکلتے ہیں۔ ’’ہمارے سیاسی ماحول میں اس قسم کے بیانات کی بازگشت باقی رہ جاتی ہے، اور یہ تاثر مضبوط ہو جاتا ہے کہ روسی امریکہ کے خلاف ہیں، یا پوٹن امریکہ کے خلاف ہیں، یا وہ تعمیری انداز اختیار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اگر ایسی باتیں صرف انتخاب میں فائدہ اٹھانے کی غرض سی کی جاتی ہیں، تو یہ بڑی تنگ نظری کی بات ہے کیوں پھر انہیں اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، یا ہم سب کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔‘‘

پرنسٹن یونیورسٹی اور نیو یارک یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر اسٹیفن کوہن کہتے ہیں کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب کی مہم میں بھی روس کے خلاف بیان بازی کی گئی ہے ۔

’’جب مٹ رومنی کہتے ہیں کہ جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے امریکہ کا سب سے بڑا دشمن روس ہے، جو حالات و واقعات کے لحاظ سے حقیقت سے بہت دور کی با ت ہے، تو یہ بات ماسکو میں سنی جاتی ہے ۔ اسے سنجیدہ بیان سمجھا جاتا ہے ۔ اس کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ امریکیوں سے کسی خیر کی توقع کرنا عبث ہے، وہ ہمارے شراکت دار نہیں ہو سکتے، وہ اپنے سمجھوتوں کا پاس نہیں کرتے، وہ کوئی رعایتیں نہیں دیں گے۔ تو جب پوٹن دوبارہ اقتدار سنبھالتے ہیں تو اس سے مدد نہیں ملتی کیوں کہ وہ سوچتے ہیں کہ ٹھیک ہے، یہ بات صدر نے نہیں بلکہ رومنی نے کہی ہے۔ لیکن کیا صدر کا اپنا خیال بھی یہی ہے ؟‘‘

تجزیہ کار کہتےہیں کہ اس قسم کے بیانات سے، امریکہ میں سخت موقف رکھنے والے لوگ روس میں سخت موقف رکھنے والوں کو تقویت پہنچاتے ہیں، اور یہ بات دونوں ملکوں پر صادق آتی ہے ۔
صدر اوباما نے ماسکو کے ساتھ بہتر تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی اہمیت دی ہے ۔ اس وقت کے روسی صدر دمتری میدویدف اور وزیرِ اعظم ولادیمر پوٹن کے ساتھ تعلقات نئے ڈھب سے قائم کرنے کے نتیجے میں تخفیفِ اسلحہ کا ایک بڑا سمجھوتہ ہوا، اور افغانستان اور ایران جیسے مسائل میں تعاون میں اضافہ ہوا۔

رابرٹ لیگوولڈ کہتے ہیں کہ روس کی صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران مسٹر پوٹن کے سخت بیانات کے باجود، اوباما انتظامیہ کو امید ہے کہ روس کی خارجہ پالیسی میں تسلسل قائم رہے گا۔’’انہیں تسلسل قائم رہنے کی امید ہے کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ میدویدف کے عہد میں جو بھی اچھی باتیں ہوئیں، انہیں پوٹن کی تائید حاصل تھی ۔ وہ جانتے ہیں کہ میدویدف اکیلے کام نہیں کر رہے تھے، پوٹن کی مخالفت تو دور کی بات ہے ۔ مثال کے طور پر، تخفیفِ اسلحہ کے نئے اسٹارٹ سمجھوتے پر دستخط، افغانستان آنے جانے کے لیے شمالی راستہ کھولنا، اقوامِ متحدہ میں ایران پر پابندیوں کے بارے میں روس کی پالیسی کے خدو خال بتدریج متعین ہونا، ان تمام اقدامات میں خیال یہی ہے کہ پوٹن کی رضامندی شامل تھی، اگرچہ یہ بھی صحیح ہے کہ لیبیا اور شام جیسے کچھ مسائل میں کچھ اختلافات بھی پیدا ہوئے ۔‘‘

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکہ اور روس کے درمیان تعلق گذشتہ چند برسوں میں اس حد تک مضبوط ہو گیا ہے کہ کشیدگی سے بھر پور سر د جنگ کے دنوں کی واپسی عملی طور پر نا ممکن ہے ۔

XS
SM
MD
LG