رسائی کے لنکس

امریکہ پر تین فرانسیسی صدور کی جاسوسی کا الزام: وکی لیکس


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وکی لیکس نے کہا ہے کہ دستاویزات میں فرانس کے ’ایلائسی‘ صدارتی محل کے متعدد افسران کے موبائل فون نمبر بھی موجود ہیں، جن میں صدر کا ڈائریکٹ فون نمبر بھی شامل ہے۔

شفافیت کی حامی ویب سائٹ وکی لیکس نے منگل کو ایک پریس بیان میں انتہائی حساس انٹیلی جنس رپورٹس اور تکنیکی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے تین فرانسیسی صدور کی جاسوسی کی۔

ان انکشافات، جن کی اطلاع فرانس کے روزنامے ’لیبریشن‘ اور تحقیقاتی ویب سائٹ ’میڈیا پارٹ‘ کے تعاون سے دی جا رہی ہے، کے درست ہونے فوری تصدیق نہیں ہو سکی۔

دستاویزات کے مطابق امریکہ نے کم از کم 2006 سے مئی 2012 تک یاک شیراک، نکولیس سارکوزی اور موجودہ رہنما فرانسیس اولاند کی وائر جاسوسی کی۔ وکی لیکس کے مطابق فرانس کی کابینہ کے ارکان اور فرانس کے امریکہ میں تعینات سفیر نگرانی کا براہ راست ہدف تھے۔

وکی لیکس نے کہا ہے کہ دستاویزات میں فرانس کے ’ایلائسی‘ صدارتی محل کے متعدد افسران کے موبائل فون نمبر بھی موجود ہیں، جن میں صدر کا ڈائریکٹ فون نمبر بھی شامل ہے۔

دستاویزات میں عالمی مالیاتی بحران، یونان کے قرضوں کے بحران، اور اولاند انتظامیہ اور آنگلا مرخیل کی جرمن حکومت کے درمیان تعلقات پر فرانسیسی حکومت کے اہلکاروں کی گفتگو کے خلاصے بھی شامل ہیں۔

اس انکشاف سے فرانس میں بحث کا ایک طوفان برپا ہونے کا امکان ہے جیسا کہ امریکہ کی جانب سے عالمی رہنماؤں کی جاسوسی کے گزشتہ الزامات کے بعد ہوا تھا۔

نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات نے جرمنی میں ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔

سنوڈن نے دعویٰ کیا تھا کہ واشنگٹن نے جرمنی میں بڑے پیمانے پر الیکٹرانک جاسوسی کی تھی اور ایجنسی نے مرخیل کے ذاتی ٹیلی فون کی بھی نگرانی کی تھی۔ اس دعوے کے بعد اس بات کی سرکاری تحقیقات شروع ہو گئی تھی کہ جرمن انٹیلی جنس سروسز امریکہ کے ساتھ کس حد تک تعاون کر رہی ہیں۔

وکی لیکس نے کہا ہے کہ فرانسیسی قارئین ’’مستقبل میں زیادہ بروقت اور اہم انکشافات کی توقع کر سکتے ہیں۔‘‘

گزشتہ ہفتے وکی لیکس نے سعودی عرب سے آنے والی 60,000 سفارتی کیبلز آن لائن شائع کی تھیں اور آئندہ آنے والے دنوں میں پانچ لاکھ کے قریب دستاویزات حصوں میں تقسیم کر کے شائع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG