رسائی کے لنکس

میزائل حملے سے ’کشیدگی میں اضافے کا خدشہ‘


شام کے ہوائی اڈے پر امریکی میزائل حملے کے بارے میں اگرچہ پاکستانی حکومت کی طرف سے تو کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، لیکن ایک مذہبی و سیاسی جماعت کے راہنما کے علاوہ پاکستان ایوان بالا کے رکن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح کی کارروائی سے بظاہر خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

امریکہ کی طرف سے یہ کارروائی شام میں باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے میں رواں ہفتے ایک مہلک کیمیائی حملے کے جواب میں کی گئی۔

ادلب کے علاقے خان شیخون میں کیمیائی حملے میں بچوں اور خواتین سمیت لگ بھگ 100 شہری ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے یہ کیمیائی حملہ صدر بشار الاسد کی حکومت نے کیا، البتہ شام اس کی تردید کرتا ہے۔

ایک مذہبی و سیاسی جماعت مجلس وحدت المسلمین کے راہنما علامہ امین شہیدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ اچھا ہوتا کہ کیمیائی حملے سے متعلق تحقیقات مکمل ہونے کے بعد کوئی کارروائی کی جاتی۔

’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہرحال صدر ٹرمپ کے اس اقدام کے بعد علاقے کی کشیدگی میں اضافہ ہو گا کمی نہیں آئے گی اور صورت حال میں مزید خرابیاں پیدا ہوں گی، داعش کو اور بشارالاسد مخالف گروپوں کو زیادہ مضبوط کرنے کا ایک موقع ان کو میسر ہو گا۔۔۔۔ کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ اگر آپ واقعی بشار الاسد کے خلاف کوئی قدم اٹھانا چاہتے ہیں تو وہ قدم قانونی ہونا چاہیئے ۔۔۔۔ زمینی حقیقتوں کے مطابق ہونا چاہیئے۔‘‘

پاکستان کی ایوان بالا یعنی سینیٹ کے رکن لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کہتے ہیں کہ امریکہ کی اس کارروائی سے مشرق وسطیٰ میں صورت حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔

’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ مشرق وسطیٰ کی صورت حال اگر پیچیدہ نا ہو، تو کم از کم تو حل کی طرف یہ کوئی قدم نہیں تھا ۔۔۔ آپ دیکھیں گے روسی بھی شامل ہیں امریکی بھی شامل ہو گئے اور اس کے اندر ان کی اندرونی فورسز ہیں تو ہم مسائل کو حل کرنے کی طرف نہیں گئے۔‘‘

سینیٹر عبدالقیوم کہتے ہیں کہ شام کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے اقوام متحدہ کی سطح پر کوئی فیصلہ کیا جانا چاہیئے۔

’’آپ کے پاس ایک فورم ہے اقوام متحدہ کا، آپ کو ڈپلومیٹک سطح پر، سیاسی سطح پر آپ اس چیز کو دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔ اس سے کبھی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو اسے اقوام متحدہ کی (چھتری کے نیچے) ہونا چاہیئے۔‘‘

پاکستان کی معروف کاروباری شخصیت امین اکبر ہاشوانی کہتے ہیں کہ اس صورت حال سے اگرچہ فوری طور پر تو پاکستانی معیشت پر کوئی منفی اثرات نظر نہیں آتے تاہم اُن کے بقول اگر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھی تو پاکستان بھی اس سے متاثر ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں بیشتر حلقوں کا کہنا ہے کہ شام کے مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ سمیت دیگر با اثر ملک مل کر کوئی راستہ نکالیں۔

XS
SM
MD
LG