رسائی کے لنکس

حافظ سعید کی گرفتاری پر ایک کروڑ ڈالر انعام


مرکز میں پیپلز پارٹی کی زیر قیادت حکمران اتحاد میں شامل ایک اہم جماعت، مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی فیصلے کو قانونی نہیں بلکہ سیاسی قرار دے کر مسترد کیا ہے۔

امریکہ نے پاکستان کی کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے بانی حافظ محمد سعید کی گرفتاری میں مدد دینے پر ایک کروڑ ڈالر انعام مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اس تنظیم پر بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی میں نومبر 2008ء میں کی گئی دہشت گردی کی اُس کارروائی کی منصوبہ بندی کا الزام ہے جس میں 166 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

لشکر طیبہ کے نائب امیر حافظ عبد الرحمٰن مکی کی گرفتاری پر بھی 20 لاکھ ڈالر انعامی رقم مقرر کی گئی ہے۔

حافظ سعید ان دنوں پاکستان کی ایک اسلامی تنظیم جماعت الدعوة کے امیر ہیں جو حکام کے بقول ایک فلاحی ادارہ ہے۔ لیکن مبینہ طور پر یہ کالعدم لشکر طیبہ کا نیا نام ہے۔

پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں امریکی حکومت کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ حافظ محمد سعید کو صوبائی حکومت نے گرفتار کیا تھا لیکن شواہد کی عدم دستیابی پرعدالت نے ان کی رہائی کا حکم جاری کر دیا۔

’’حکومت کے پاس اس وقت بھی ایسے کوئی شواہد نہیں جن کی بنیاد پرجماعت الدعوة کے امیر کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دوبارہ گرفتار کیا جاسکے۔‘‘

صوبائی وزیر قانون کا کہنا ہے کہ ماسوائے ایک اسکول اور اسپتال کے پنجاب حکومت نے جماعت الدعوة کی تمام تنصیبات کو بہت پہلے بند کردیا تھا۔

’’اسکول کے نصاب اور اسپتال کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ درس و تدریس اور غریب مریضوں کے علاج معالجے کے علاوہ وہاں کوئی مشتبہ کام نہیں ہو رہا تھا، اور یہ ہی رائے سامنے آئی کہ ان سہولتوں کو بند کرنے سے عام لوگوں میں اس تنظیم (جماعت الدعوة) کے لیے ہمدردی بڑھے گی۔‘‘

مرکز میں پیپلز پارٹی کی زیر قیادت حکمران اتحاد میں شامل ایک اہم جماعت، مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی فیصلے کو قانونی نہیں بلکہ سیاسی قرار دے کر مسترد کیا ہے۔

’’حافظ سعید مفرور نہیں ہیں اور نا ہی ان کے خلاف پاکستان یا امریکہ میں کوئی مقدمہ درج ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے ان کو رہا کر دیا تھا۔ دلچسپت بات یہ ہے کہ امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے اچانک اس فیصلے کا اعلان دہلی میں کیا ہے جو پاکستانی عوام کے لیے باعث حیرت بنا ہے۔‘‘

مشاہد حسیین سید
مشاہد حسیین سید

مشاہد حسین نے کہا کہ امریکہ کو چاہیئے تھا کہ وہ ایسا فیصلہ کرنے سے قبل پاکستان سے رجوع کرتا کیوں کہ حافظ سعید پاکستانی شہری ہیں۔

’’دہلی میں اس قسم کا اعلان کرنے سے واضح ہو گیا ہے کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے جسے امریکہ میں متحرک ہندوستان کی لابی کو کامیابی ملی۔‘‘

سینیٹر مشاہد نے مطالبہ کیا کہ امریکی حکومت حافظ سعید کے معاملے میں قانونی راہ اختیار کرے۔

’’کیوں کہ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کچھ طالبان رہنماؤں کے نام بھی اس فہرست میں شامل کیے گئے تھے لیکن اب یہ نام خارج کر دیئے گئے ہیں کیوں کہ امریکی اب طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں‘‘۔

جماعت الدعوة کے سربراہ کی حیثیت سے حافظ سعید پاکستان میں آزادانہ جلسے جلسوں سے خطاب کرنے کے علاوہ نجی ٹی وی چینلز پر مباحثوں میں بھی باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں۔

اُن کی گرفتاری پر انعامی رقم کا اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں اور یہ پیش رفت صورت حال کو مزید پیچیدہ کرسکتی ہے۔

پاکستان کا موقف ہے کہ ممبئی حملوں میں کردار ادا کرنے کے شبے میں سات مشتبہ انتہا پسندوں پر ملک میں مقدمہ چلایا جارہا ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں حافظ سعید کے ملوث ہونے کے بارے میں کوئی شواہد نہیں ہیں۔

جماعت الدعوة کے امیر کی گرفتاری پر مقرر کی گئی انعامی رقم افغانستان میں طالبان باغیوں کے مفرور رہنما ملا محمد عمر کے سر کی قیمت کے برابر ہے۔

معاون امریکی وزیر خارجہ وینڈی شرمین
معاون امریکی وزیر خارجہ وینڈی شرمین

بھارتی اخبار ’دی ٹائمز آف انڈیا‘ نے کہا ہے کہ حافظ سعید کے سر کی قیمت کا اعلان معاون امریکی وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے پیر کونئی دہلی کے دورہ کے موقع پر کیا۔

جماعت الدعوة کے امیر حافظ سعید کی گرفتاری کے لیے امریکہ کی جانب سے انعامی رقم کا اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کشیدگی شکار ہیں اور پارلیمان میں دوطرفہ رابطوں پر نظرثانی کا عمل جاری ہے.

حافظ سعید نے امریکی فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ نیٹو سپلائی لائنز کی ممکنہ بحالی کے خلاف اُن کی ملک گیر مہم کی پاداش میں امریکہ نے اُن کے خلاف یہ کارروائی کی ہے۔

ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں انھوں نے کہا ہے کہ اگر ان کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت ہیں تو امریکی حکام اُنھیں منظر عام پر لائیں۔

XS
SM
MD
LG