رسائی کے لنکس

افغان سکیورٹی فورسز کی استعداد کار بڑھائی جائے گی: رچرڈ اولسن


نے پاکستانی سکیورٹی فورسز کی قبائلی علاقے وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں کو سراہا لیکن ان کے بقول اسے دوسروں کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے۔

افغانستان کی سکیورٹی فورسز کو مضبوط بنانے اور ان کی استعداد کار کو بڑھانے کے لیے امریکہ اسے تین ارب ڈالر سالانہ معاونت فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

یہ بات افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن نے واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک "انٹلانٹک کونسل" میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔

13 سالہ لڑاکا مشن کے مکمل ہونے پر تمام بین الاقوامی افواج 2014ء کے اواخر میں افغانستان سے واپس چلی گئی تھیں۔ لیکن ایک سکیورٹی معاہدے کے تحت لگ بھگ 13 ہزار غیر ملکی فوجی جن میں اکثریت امریکیوں کی ہے، جنگ سے تباہ حال اس ملک کی سکیورٹی فورسز کو تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت کے لیے یہاں موجود ہیں۔

نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن (فائل فوٹو)
نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن (فائل فوٹو)

رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ یہ رقم 2018ء سے 2020ء کے درمیان ادا کی جائے گی اور ان کے بقول اوباما انتظامیہ کانگریس سے یہ مطالبہ بھی کرے گی کہ اسی عرصے کے لیے افغانستان میں ترقی اور اقتصادی تعاون کے لیے سالانہ ایک ارب ڈالر کی معاونت بھی فراہم کی جائے۔

گزشتہ سال افغانستان کے لیے شروع ہونے والا مصالحتی عمل ہنوز تعطل کا شکار ہے اور طالبان عسکریت پسندوں کے ہلاکت خیز حملوں میں اضافے سے ملک میں سلامتی کی صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے۔

گزشتہ ماہ افغان سرحد سے ملحقہ پاکستانی علاقے میں ایک ڈرون حملے میں طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کو پاکستان، افغان مصالحتی عمل کے لیے دھچکہ قرار دیتا ہے۔ لیکن نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن عمل کے لیے امریکہ کے عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

ان کے بقول ملا منصور امن کی راہ میں ایک رکاوٹ اور امریکیوں کے لیے بدستور ایک خطرہ تھے۔

پاکستان کی طرف سے بھارت پر یہ الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ وہ پاکستان میں بدامنی کے لیے افغانستان میں اپنی موجودگی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ لیکن اپنا موجودہ منصب سنبھالنے سے پہلے اسلام آباد میں بطور امریکی سفیر ذمہ داریاں نبھانے والے نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض اوقات افغانستان میں بھارت کے اثرورسوخ کو پاکستان میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کو امن و امان کے لیے اپنے ہاں موجود افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک جیسے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔

گو کہ انھوں نے پاکستانی سکیورٹی فورسز کی قبائلی علاقے وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں کو سراہا لیکن ان کے بقول اسے دوسروں کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کا موقف ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر قائم ہے اور اس کی سکیورٹی فورسز اپنے ہاں بلا امتیاز تمام دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG