رسائی کے لنکس

امریکی معیشت میں روزگار کے نئے مواقع لیکن تشویش برقرار


امریکی معیشت میں روزگار کے نئے مواقع لیکن تشویش برقرار
امریکی معیشت میں روزگار کے نئے مواقع لیکن تشویش برقرار

جولائی میں امریکی معیشت میں 117,000 نئے لوگوں کو روزگار ملا۔ اس طرح ملک میں بے روزگاری کی شرح کم ہو کر 9.1 فیصد ہو گئی۔ سرمایہ کاروں نے اس خبر کا خیر مقدم کیا۔ لیکن روزگار کے اعداد و شمار میں کچھ بہتری کے باوجود، عالمی معیشت کے بارے میں جو تشویش پائی جاتی ہے، اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔

تین برسوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ اسٹاک مارکیٹ میں شیئرز کی قیمتیں اتنی تیزی سے گریں۔ اس صورت حال پر صرف مارکیٹ میں سرمایہ لگانے والوں میں ہی تہلکہ نہیں مچا بلکہ دنیا بھر کی معیشت کے بارے میں شدید تشویش پیدا ہوگئی۔ واشنگٹن کی ایک فارمرزمارکیٹ میں ، سودا بیچنے والے اور خریدار دونوں ہی مستقبل کے بارے میں پریشان تھے۔ ٹام آڈمز ریٹائرڈ ٹیچر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں نے 1930ء کی دہائی کا طویل کساد بازاری کا دور دیکھا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ یہ بڑے خراب آثار ہیں۔ مجھے تو خوف محسوس ہوتا ہے۔‘‘

وال اسٹریٹ کے سرمایہ کار بھی پریشان تھے۔ جمعے کے روز بھی شیئر مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ جاری رہا۔ بعض اہم اسٹاکس کی قیمتیں اوپر جاتیں اور پھر تیزی سے نیچے آ جاتی تھیں۔

شیئر مارکیٹ کے ایک ماہر، ڈیوڈ جانز کہتے ہیں کہ اس تشویش میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ عالمی معیشت ایک بار پھر طویل کساد بازاری کے گرداب میں پھنسنے والی ہے۔ ان کے مطابق ’’اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ہم نے مارکیٹ میں اس ہفتے جو افرا تفری دیکھی ہے اس سے تین سال پہلے مارکیٹ کی جو حالت ہوئی تھی، اس کی یاد تازہ ہو گئی۔‘‘

اشیاء کی تیاری، ریٹیل اور صحت کے شعبوں میں روزگار کے مواقع میں اضافے کے باوجود، اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ میں بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملازمتوں کی تعداد میں جس شرح سے اضافہ ہو رہا ہے اس کی رفتار دگنی ہو جائے۔

جیروم لیوی فارکاسٹنگ سینٹر میں ڈائریکٹر آف ریسرچ، شری نواس تھرو وادنتھی کہتےہیں کہ ’’آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ لیبر مارکیٹ نرم پڑ رہی ہے یعنی ملازمتیں کم ہیں اور بے روزگار لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہر شعبے میں ایک جیسی حالت نہیں ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ ہم ابھی تک مشکلات سے نکلے نہیں ہیں۔‘‘

صدر براک اوباما
صدر براک اوباما

وہائٹ ہاؤس نے اس مشکل صورت ِ حال کا اعتراف کیا ہے۔ جمعہ کے روز، سابق فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے، صدر براک اوباما نے وعدہ کیا کہ ستمبر میں جب کانگریس کا اجلاس دوبارہ شروع ہو گا، تو وہ روزگار کے مواقع پر زیادہ توجہ دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا خود کار سلسلہ قائم ہو جائے کہ لوگ خرچ کریں اور کمپنیاں لوگوں کو ملازم رکھیں اور ہماری معیشت ترقی کرتی رہے۔ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ اس میں کچھ وقت لگے گا۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ امریکہ کے لوگ اور دنیا بھر میں ہمارے شراکت دار یہ بات سمجھ لیں کہ ہم اس مشکل سے نکل آئیں گے۔ حالات یقینی طور پر بہتر ہو جائیں گے۔‘‘

لیکن کچھ امریکی ایسے بھی ہیں جو حکومت کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہیں۔ شارون جیریمیہ کی کمپنی نے ملازمین کی تعداد کم کرنی شروع کی تو ان کی ملازمت جاتی رہی۔ کسی اور کمپنی کی طرف سے ملازمت کی پیشکش کا انتظار کیے بغیر، انھوں نے خود اپنا کاروبار شروع کر دیا۔ انھوں نے خود جیولری ڈیزائن کرنی اور فروخت کرنی شروع کردی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے سوچا کہ میں بیکار بیٹھ کر حالات کا رونا رو سکتی ہوں یا یہ کوشش کر سکتی ہوں کہ معلوم کروں کہ میں کس طرح چار پیسے کما سکتی ہوں۔ آپ یا تو بیکار بیٹھ سکتے ہیں یا کچھ کر سکتے ہیں، اور میں نے طے کیا کہ میں کچھ کر کے دکھاؤں گی۔‘‘

ایسا لگتا ہے کہ سرمایہ کاروں کو زیادہ بڑی پریشانی یہ ہے کہ امریکی کیا نہیں کریں گے۔ ملازمت کے بارے میں عدم تحفظ کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صارفین نے پیسہ خرچ کرنا کم کر دیا ہے۔ امریکہ کی معیشت میں اہم ترین چیز یہ ہے کہ صارفین پیسہ خرچ کریں۔ امریکہ میں تمام اقتصادی سرگرمیوں کا 70 فیصد حصہ صارفین کے خرچ کے سہارے چلتا ہے۔

XS
SM
MD
LG