رسائی کے لنکس

لائف اِن امریکہ: جب، مشترکہ خاندانی نظام فرسودہ ہونے لگا!


لائف اِن امریکہ: جب، مشترکہ خاندانی نظام فرسودہ ہونے لگا!
لائف اِن امریکہ: جب، مشترکہ خاندانی نظام فرسودہ ہونے لگا!

ایک اندازے کے مطابق، دوکروڑ نوجوان امریکی جو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر الگ رہ رہے تھے، اب واپس ماں باپ کے گھر آگئے ہیں۔ وجہ یا تو اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہ رہنا یا پھر یہ سہولت کہ گھر کا کھانا ملے گا، مفت کا گھر ہوگا اور بچت کی بچت۔ ایسے بچوں کو یہاں امریکہ میں Boomerang Kids کہا جارہا ہے

ایک زمانہ تھا جب ہمارے ملکوں میں دادا، بیٹا، پوتا سب ایک ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے رہتے تھے۔

ایک بڑے سے گھر میں، بڑے سے دالان میں سب مل کر بیٹھتے۔ ایک جگہ کھانا پکتا اور ایک ہی دسترخوان پر سب خوشی خوشی کھاتے۔ مگر پھر یہ نظام کچھ تبدیل ہوتا گیا ۔ روزگار کی تلاش یا پھر خاندان میں نئے اضافے۔ کچھ مجبوری کچھ فیشن۔

خاندان کی اکائی ٹوٹنے لگی اور مشترکہ خاندانی نظام فرسودہ ہونے لگا اور ماں باپ نے بھی بچوں کو اجازت دی کہ وہ شادی کے بعد یا روزگار کی تلاش میں اُن سے الگ اپنا گھربسا لیں۔

بعض خاندان آج بھی اِکٹھے رہتے ہیں اور اس کے اپنے فائدے اپنے نقصانات ہیں۔ لیکن ، امریکہ میں ایک رواج برسوں سے قائم ہے کہ بچے ہائی اسکول یعنی بارہواں گریڈ پاس کرتے ہی اپنے گھر سے کالج سدھار جاتے ہیں۔

ہاسٹل میں، جسے یہاں Dormکہا جاتا ہے، رہتے ہیں یا پھر اپنا الگ اپارٹمنٹ لے کر ایک آزاد زندگی گزارتے ہیں۔ ماں باپ کچھ مدد کردیں تو فبھا، ورنہ خود ہی اپنا بوجھ اُٹھاتے ہیں۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رہتی ہے۔

چھٹیوں میں مہمان بن کر آئے، ماں باپ کے ساتھ کچھ وقت گزارا اور پھر سدھار گئے۔ ماں باپ بھلے کتنا ہی اداس ہوں مگر بچوں کی خوشی اور اُن کے بہتر مستقبل کےلیے اُن کی جدائی کا یہ رنج ہنسی خوشی برداشت کرتے ہیں۔ اور آپ جانئے یہ وقت جہاں بچوں کے لیے آزادی کی ایک اُڑان سے کم نہیں، وہیں والدین کو بھی اپنی جانب توجہ دینے کا وقت مل جاتا ہے۔

لیکن پچھلے ایک برس سے بات کچھ تبدیل ہوگئی ہے۔ امریکی معیشت کی رفتار سست پڑ ی، ملازمتوں کے مواقع کم ہوئے اور طلبا ٴ کی بات تو جانے دیجیئے، خاندان کے خاندان ملازمتیں چلے جانے سے مالی مسائل کا شکار ہوگئے اور وہ پرندے جو آزادی کی اڑان بھر گئے تھے اپنے آشیانوں کو لوٹنے لگے۔ بڑوں کو ملازمت ملنا مشکل ہو تو بھلا ناتجربہ کار طالب علموں کو بھرتی کرنے کی نوبت کب آئے گی۔ بڑی بڑی کمپنیاں جو کبھی کالجوں ہی سے گریجوئیٹس کو اپنے لیے بھرتی کر لیتی تھیں اب اپنے موجودہ عملے ہی سے کام چلا رہی ہیں۔

حالات مشکل ہیں۔ ایسے میں تعلیم کا خرچ اور اوپر سے مکان کا کرایہ۔ ایک طالبِ علم کے لیے یہ اخراجات اُس کی بساط سے باہر ہیں۔ چناچہ، کالج سے گریجوئیٹ ہونے والے85فی صد طلباٴ نے محققین کو بتایا ہے کہ وہ واپس اپنے ماں باپ یا دادا نانا کے پاس رہنے جارہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق، دوکروڑ نوجوان امریکی جو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر الگ رہ رہے تھے، اب واپس ماں باپ کے گھر آگئے ہیں۔

وجہ یا تو اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہ رہنا یا پھر یہ سہولت کہ گھر کا کھانا ملے گا، مفت کا گھر ہوگا اور بچت کی بچت۔ ایسے بچوں کو یہاں امریکہ میں Boomerang Kidsکہا جارہا ہے۔

اِن میں کچھ تو ایسے ہیں جو اپنے نانا نانی یا دادا دای کے ساتھ رہنے کے لیے آگئے ہیں۔ اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایک جائزے کے مطابق جب معمر امریکی پیسے بچانے کے لیے بڑے گھروں سے چھوٹے اپارٹمنٹ میں منتقل ہوتے ہیں تو اُن کے یہ پیارے رشتے دار یہ پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں اکثر اُن کے ساتھ رہنے کے لیے آجاتے ہیں۔

چناچہ، امریکہ میں معمر لوگوں کے لیے ٹینس کورٹس، سوئمنگ پولز یا ورزش کی کلاسوں میں جہاں آپ کو سفید بالوں والے مرد و خواتین نظر آئیں گے وہیں چاک و چوبند نوجوان بھی چمکتے چہرے اور روشن پیشانی کے ساتھ اُن کے قدموں کےنشان پر اپنے قدم جماتے نظر آئیں گے: کہ، یہی محبت ہے اور یہی ضرورت بھی۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG