رسائی کے لنکس

ایران کے ساتھ سختی برتی جائے: امریکی قانون ساز


فائل
فائل

صرف اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایران کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا: کیری

چوٹی کے امریکی قانون سازوں نے ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کی اثر پذیری پہ تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اوباما انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے تنازع پر سخت موقف اپنائے۔

بدھ کو امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں ایران کی صورتِ حال پہ ہونے والی سماعت کے دوران کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جان کیری نے ایران کے جوہری پروگرام کو امریکہ کی خارجہ پالیسی کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔

سینیٹر کیری نے کہا کہ صرف اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایران کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے واشنگٹن سے ایران کے ساتھ "سخت گیر سفارت کاری" شروع کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

سماعت کے دوران میں کمیٹی کے ری پبلکن رکن سینیٹر رچرڈ لوگر کا کہنا تھا کہ عالمی برادری میں اپنی بڑھتی ہوئی تنہائی کے باوجود ایران اپنا رویہ بدلنے سے انکاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران کو اپنی جوہری پروگرام یا معاشی بقا میں سے کسی ایک راستے کو منتخب کرنا ہوگا۔

کمیٹی کے اراکین کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ایران کے معاملے پر فوجی طاقت کے استعمال سمیت تمام آپشن کھلے رکھے ہیں۔ سینیٹر کیری نے کہا کہ فوجی مداخلت کا امکان کھلا رکھنے سے مذاکرات کے عمل میں تیزی لائی جاسکتی ہے۔

ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے امریکی الزامات کی تردید کرتا رہا ہے اور اس کا موقف ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیوں کا مقصد بجلی کی پیداوار اور طبی تحقیق ہے۔

دریں اثنا، ایران کے وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی نے کہا ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام پر تہران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کا نیا سلسلہ 13 اپریل تک شروع ہونے کی توقع ہے۔

مذاکرات میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین – امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس – کے علاوہ جرمنی بھی شریک ہوگا۔

تاہم، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرائن ایشٹن کے ترجمان کے مطابق مذاکرات کی تاریخ یا مقام پر تاحال کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے۔

لیکن ایرانی وزیرِ خارجہ نے تہران میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مذاکرات کے مقام کا تعین آئندہ چند روز میں کرلیا جائے گا۔

ایران چاہتا ہے کہ یہ مذاکرات ترکی کے شہر استنبول میں ہوں جس نے جنوری 2011ء میں ہونے والے مذاکرات کے آخری دور کی بھی میزبانی کی تھی۔

XS
SM
MD
LG