رسائی کے لنکس

کیتھولکس کو ’کریمیشن‘ کی اجازت ہے، لیکن خاک کی تدفین لازم ہے: ویٹیکن


فائل
فائل

کلیسا نے واضح کیا ہے کہ اِس کا مقصد یہ ہے کہ بے حرمتی نہ ہو، اور خاک کو ایک ہی مقام پر ڈالا جائے، جہاں فوت ہونے والا دیگر مسیحیوں کے ساتھ دعا اور یاد کے موقع پر شامل رہے، الگ نہ رہ جائے

نئی ہدایات جاری کرتے ہوئے، ویٹیکن نے اِس بات کی سفارش کی ہے کہ کسی بھی کیتھولک فرد کے جسد خاکی کو آگ میں جلانے (کریمیشن کے عمل) کے بعد بھی قبرستان میں دفن کیا جانا لازم ہے،اور گھر میں رکھنا مناسب نہیں۔

ویٹیکن کی جانب سے منگل کے روز ’مذہبی عقائد‘ پر اجتماعی دعا کے دوران ’کریمیشن‘ کے بارے میں نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ کیتھولک کلیسا نے جسد خاکی کو آگ میں جلانے کے عمل کی منظوری کا اعادہ کیا۔ تاہم، اِس بات پر زور دیا کہ خاک کو دفن کرنے کی ضرورت رہتی ہے۔۔

ہدایات میں واضح کیا گیا ہے کہ ’’فوت ہو جانے والے فرد کی خاک کو ہوا میں پھیلانا، زمین یا سمندر برد کرنا یا کسی اور طرح سے پھیلا دینے کی اجازت نہیں ہے، نہ ہی اس بات کی اجازت ہے کہ خاک کو یادگار کے طور پر گھر میں محفوظ کر لیا جائے۔

چرچ نے واضح کیا ہے کہ اِس کا مقصد یہ ہے کہ بے حرمتی نہ ہو، اور خاک کو ایک ہی مقام پر رکھا جائے۔

امریکہ میں رفتہ رفتہ ’کریمیشن‘ پسندیدہ عمل بنتا جا رہا ہے۔

شمالی امریکہ کی ’کریمیشن‘ تنظیم، جو کریمیشن سے متعلق ایک کاروباری گروپ ہے، بتایا ہے کہ سنہ 2015 میں امریکہ میں فوت ہونے والے افراد کی نصف کو کریمیٹ کیا گیا، جب کہ 2000ء میں یہ شرح تقریباً 25 فی صد تھی۔

سنہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں ’سیکنڈ ویٹیکن کونسل‘ کی جانب سے اعلان کردہ کیھولک کلیسا کا مؤقف یہ تھا کہ آخری رسومات میں کریمیشن کو ترجیحی یہ دی جائے۔ لیکن ساتھ ہی، اس کو ممنوع قرار نہیں دیا۔

XS
SM
MD
LG