رسائی کے لنکس

'ہم خیریت سے ہیں' نائیجریا کی مغوی طالبات کی وڈیو


ایک مغوی بچی یاوالے دنیا کے والد کہتے ہیں کہ وہ جب بھی لاپتا بیٹی کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔

نائیجیریا کے ایک اسکول سے دو سال قبل شدت پسند گروپ بوکو حرام کی طرف سے اغوا کی گئی دو سو سے زائد طالبات کی ایک تازہ وڈیو منظر عام پر آئی ہے جب کہ ان کے لڑکیوں کے والدین اب بھی غم کی تصویر بنے ان کے بازیابی کے منتظر ہیں۔

سی این این نے بدھ کو ایک وڈیو نشر کی جس کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ یہ گزشتہ دسمبر میں ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس میں لڑکیوں کو حجاب اوڑھے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وڈیو میں ایک لڑکی یہ کہتی ہے کہ "ہم سب خیریت سے ہیں۔"

امریکی خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے نائیجیریا کے سینیٹر شاہو ثانی کا کہنا تھا کہ یہ وڈیو درست معلوم ہوتی ہے۔ ثانی بوکو حرام کے ساتھ ان لڑکیوں کی بازیابی کے لیے مذاکرات میں بھی شریک رہ چکے ہیں۔

نائیجیریا کو مغوبی طالبات کو بازیاب نہ کروا سکنے پر عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا رہا ہے جب کہ حکومت اس عزم کا اظہار کرتی آئی ہے کہ وہ طالبات کو رہا کروا لے گی۔

بوکو حرام گزشتہ برسوں میں ہزاروں افراد کو اغوا کر چکا ہے لیکن اتنی بڑی تعداد میں طالبات کو ایک ساتھ اغوا کرنے کے اس واقعے کی دنیا بھر کی توجہ اس شدت پسند گروپ کی طرف دلائی۔

14 اپریل 2014ء کو شدت پسندوں نے چیبوک کے علاقے میں واقع گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول سے 276 طالبات کو اغوا کیا تھا۔ ان میں سے متعدد بعد ازاں فرار ہونے میں کامیاب رہیں لیکن اب بھی 219 بوکو حرام کے قبضے میں ہیں۔

فوج نے گزشتہ ہفتے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مئی سے لے کر اب تک تقریباً 11595 افراد کو بازیاب کروایا ہے لیکن ان میں کوئی بھی چیبوک سے اغوا ہونے والی طالبہ نہیں ہے۔

دوسری جانب ان طالبات کے والدین ان کی رہائی کے منتظر ہیں اور دو سال گزر جانے کے بعد بھی ان کا دکھ تازہ ہے۔

ان والدین کا کہنا ہے کہ ان کے لیے اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ ایک مغوی بچی یاوالے دنیا کے والد کہتے ہیں کہ وہ جب بھی لاپتا بیٹی کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔

جس اسکول سے یہ طالبات اغوا ہوئی تھیں وہ اب ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ شدت پسند جاتے ہوئے اسے نذر آتش کر گئے تھے۔ عمارت کو منہدم کر کے اسے دوبارہ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن تاحال صورتحال جوں کی توں ہی ہے۔

XS
SM
MD
LG