رسائی کے لنکس

خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن


خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن
خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ اکثر صورتوں میں تشدد، خواتین کے مساوی حقوق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کے طورپر سامنے آتا ہے

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بن کی مون نے تمام معاشروں اور بالخصوص نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ وہ خواتین کے خلاف تشدد ، کام کے دوان انہیں ہراساں کرنے اور ان کے خلاف جنسی زیادتیوں کے واقعات روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

وہ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر نیویارک میں ایک خصوصی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اکثر صورتوں میں تشدد خواتین کے مساوی حقوق کی راہ میں ایک سب سے بڑی رکاوٹ کے طورپر سامنے آتا ہے۔

خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کا یہ دن دنیا بھر میں ہرسال 25 نومبر کو منایا جاتا ہے ۔ اس سال اس دن کا موضوع ہے جنسی بنیادہونے والے تشدد کی روک تھام اورخاتمے میں نوجوان قیادت کا کردار ۔

مسٹر بن کی مون کا کہناتھا کہ ہمارے سامنے چیلنج یہ ہے کہ اس پیغام کویعنی خواتین کے خلاف تشدد کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا، ہر جگہ پہنچنا چاہیے۔اس مقصد کے لیے ہمیں معاشرے کے تمام طبقوں کو ساتھ لے کرچلنا ہوگا، خاص طورپر نوجوانوں اور بالخصوص نوجوانوں مردوں اور لڑکوں کو۔

اس دن کے موقع پر اپنے ایک الگ پیغام میں مسٹر بن کی مون نے کہاہے کہ تشدد سے پاک زندگی گذارنا خواتین اور لڑکیوں کا بنیادی حق ہے ۔

مسٹر بن کی مون نے حکومتوں اور پرائیویٹ شعبے پر زور دیا کہ وہ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کے ٹرسٹ فنڈ میں اپنا حصہ بڑھائیں۔ یہ فنڈ گذشتہ 15 برسوں سے قومی ، علاقائی اور مقامی سطح کے اختراعی منصوبوں کے لیے مالی معاونت فراہم کررہاہے۔

1997ءمیں اپنے قیام کے بعد سے یہ ادارہ دنیا کے 126 ممالک میں 339 منصوبوں کے لیے سات کروڑ 70 لاکھ ڈالر کے فنڈز فراہم کرچکاہے۔ سیکرٹری جنرل نے اس فنڈ کے لیے مدد میں اضافے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صرف اس سال کے دوران انہیں ایک ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کے 2500 سے زیادہ منصوبوں سے متعلق درخواستیں موصول ہوچکی ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق 125 ممالک میں گھریلوتشدد کے خلاف سزاؤں کے لیے خصوصی قوانین موجود ہیں ا ور 139 ممالک عورتوں اور مردوں کے درمیان برابری کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود خواتین مسلسل تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں اور اس سلسلے میں لگائے جانے والے تخمینے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہر دس میں سے چھ خواتین کو اپنی زندگی میں ایک بار جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان میں سے اکثر واقعات ان کے خاوندوں یا ساتھیوں کی جانب سے پیش آتے ہیں۔

خواتین کےخلاف تشدد سے بچاؤ کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کی جانب سےجاری ہونے والی ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں خواتین کو تشدد سے بچنے اور مساوی حقوق حاصل کرنے کے لیے ابھی ایک طویل سفر کرنا ہے۔

ایتھوپیا میں اپنے دورے کے دوران اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایشا روز میگیرو نے کہا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے اور لوگوں کے رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے ہمیں سخت قوانین بنانے اور ان پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سلسلے میں سب سے ضروری چیز لوگوں کا رویہ اور سوچ تبدیل کرنا ہے۔

انہوں نے 2005ء کے ایک مطالعاتی جائزے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے یہ ظاہر ہوا تھا کہ ایتھوپیا کی 80 فی صد خواتین اور 50 فی صد مرد یہ سمجھتے ہیں کہ مخصوص حالات میں زندگی میں ایک بار بیوی کی پٹائی کرنا جائز ہے۔

میگیرو کا کہناتھا کہ یہ ایک انتہائی گمراہ کن اور خطرناک سوچ ہے۔ اور خواتین کے خلاف کسی بھی قسم کے تشدد کا کسی بھی حالت میں کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ گھریلو تشدد ایک جرم ہے اور اس کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔

خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے 2008ء میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بن کی مون نے ایک مہم شروع کی تھی جس میں تمام ممالک پر زور دیا گیا تھا کہ وہ 2015ء تک خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے خاتمے کے لیے سخت ترقوانین تیار کریں اور ان کا اطلاق یقینی بنائیں۔

XS
SM
MD
LG