رسائی کے لنکس

موغادیشو، منی سوٹا: ’وی او اے صومالیہ براہِ راست ٹاؤن ھال اجلاس‘


ٹاؤن ہال اجلاس سے خطاب کے دوران، دہشت گردی کے ناسور سے متعلق سوال کے جواب میں، صومالی صدر نے کہا ہے کہ، ’’میں نہیں سمجھتا کہ ہماری پالیسیاں ناکام رہی ہیں‘‘۔ اس ضمن میں اُنھوں نے دنیا بھر میں عدم سلامتی کی غیر معمولی صورت حال کا ذکر کیا

’وائس آف امریکہ‘ کی صومالی سروس کی جانب سے منعقدہ ایک ٹاؤن ہال اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے ، صومالی صدر حسن شیخ محمود نے دہشت گردی سے متعلق صومالیہ سے تعلق رکھنے والے باشندوں کے سوالوں کے جواب دیے۔

پہلی نوعیت کے اس پروگرام میں صومالی دارالحکومت موغادیشو اور منی سوٹا کے شہر سینٹ پال سٹی کو جڑواں شہر کے طور پر آپس میں منسلک کیا گیا۔ منی سوٹا امریکہ کا شہر ہے جس میں صومالی برادری کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔

دونوں مقامات پر صومالی نوجوانوں کے اجتماعات اکٹھے ہوئے، جنھوں نے اتنہا پسندی، بے روزگاری اور تعلیم کے عنوان پر صدر سے سوال کیے۔

جب اُن سے پوچھا گیا آیا سرکاری پالیسیاں صومالیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں، تو صدر نے واضح انداز میں انکار کرتے ہوئے دنیا بھر میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کا حوالہ دیا، یہ بتاتے ہوئے کہ تشدد کے واقعات کہیں پر بھی ہو سکتے ہیں۔

بقول اُن کے، ’’میں نہیں سمجھتا کہ ہماری پالیسیاں ناکام رہی ہیں‘‘۔ اس ضمن میں اُنھوں نے دنیا بھر میں عدم سلامتی کی غیر معمولی صورت حال کا ذکر کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ واقعات موغادیشو ، پیرس، ترکی اور دنیا کے دیگر شہروں و ملکوں میں ہوتے ہیں۔۔۔جس سے بچاؤ کی ہم حتی الوسع کوششیں کر رہے ہیں‘‘۔

مناپولیس کے ایک مکین، ادریس احمد عبدالرحمٰن نوجوان ہیں جو موسم خزاں کے دوران ہائی اسکول کی تعلیم شروع کریں گے۔ اُنھوں نے صدر سے پوچھا کہ وہ ملک کو کس طرح محفوظ بنائیں گے، تاکہ اُن جیسے بچے تعطیلات اپنے آبائی ملک جا کر اپنے والدین کے ساتھ وقت گزار سکیں۔

احمد نے کہا کہ ’’تعطیلات گزارنے کے لیے ہم اوہائیو یا سیاٹل جا جا کر تھک گئے ہیں، جب کہ اپنے آبائی ملک میں ہمارے بہت سے اچھے شہر ہیں۔ لیکن ہم آئے روز دھماکوں کی خبریں سنتے ہیں۔ آپ ہمارے والدین کو کس طرح قائل کر سکیں گے کہ سلامتی کا معاملہ قابل تشویش نہیں ہے اور وہ ہمیں تعطیلات گزارنے کے لیے ہمیں اپنے وطن آنے کا مشورہ دیں‘‘۔

بچے کے اس سوال پر شرکا نے تالیاں بجائیں؛ اور صدر نے جواب دیا کہ بیشک ملک کو عدم سکیورٹی درپیش ہے اور دہشت گردوں کے خلاف لڑائی جاری ہے، ’’تاہم، آپ موغادیشو لوٹ سکتے ہیں۔۔آپ کو کچھ نہیں ہوگا‘‘۔

صومالیہ میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے دخل جب کہ اُس کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ القاعدہ سے منسلک دہشت گرد گروپ ’الشباب‘ کے حملے بند کرانے کے لیے حکومت سرگرداں ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ چونکہ لوگوں کو روزگار تلاش کرنے میں مشکلات درپیش آتی ہیں، اس لیے کچھ صومالی باشندے انتہا پسند گروپوں کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔

منی سوٹا میں، مرد اور خواتین جن کا اِن جڑواں شہروں سے تعلق ہے داعش کے دہشت گرد گروپ میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے شام کا سفر کیا ہے۔ مزید درجن کے قریب نوجوانوں نے ایسے سفر کی کوشش کی ہے جس دوران حکام نے اُنھیں پکڑا ہے۔ سنہ 2007سے اب تک ان جڑواں شہروں سے تعلق رکھنے والے کم از کم 23 نوجوان مرد صومالیہ گئے ہیں، جہاں اُنھوں نےمبینہ طور پر الشباب میں شمولیت کے لیے ہتھیار اٹھائے، جو ایک سفاک اور قدامت پسند اسلامی ملیشیا ہے جس کے عزائم میں امریکہ کی جانب سے تسلیم شدہ صومالی حکومت کا تختہ الٹنا شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG