رسائی کے لنکس

لاڑکانہ میں کیا ہوا؟


انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک واضح طور پر کچھ بھی نہیں بتایا گیا اس لئے افواہوں کا بازار گرم ہے۔

پندرہ مارچ کی رات لاڑکانہ میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں نذرآتش ہونے والی اقلیتی برادری کی ایک اور عبادت گاہ پر پولیس اور رینجرز کے سخت پہرے بیٹھا دیے گئے۔ یہی کچھ صوبے کے دیگر شہروں میں قائم مندروں کے ساتھ بھی ہوا۔ وہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے ، اس لئے سیکورٹی انتظامات سخت کردیئے گئے ہیں۔ بلوچستان کے کچھ علاقوں سے بھی اسی قسم کی اطلاعات ملی ہیں۔

جس شخص پر قرآن کی بے حرمتی کا الزام لگا ہے وہ تاحال پولیس کی تحویل میں ہے جو ملزم کا اتاپتہ بتانے میں رازداری برت رہی ہے۔ واقعے کے حوالے سے انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک واضح طور پر کچھ بھی نہیں بتایا گیا اس لئے افواہوں کا بازار گرم ہے ۔ تاہم ایک عینی شاہد، کچھ علاقہ مکینوں اور چند پولیس ذرائع کے حوالے سے جو غیر مصدقہ اطلاعات مقامی میڈیا کو ملی ہیں ان کے مطابق واقعہ کا پس منظر حسب ذیل ہے :

واقعہ کس طرح پیش آیا؟ ملزم کون ہے؟
واقعہ ہفتے کی رات لاڑکانہ کے محلے جناح باغ چوک کے قریب ایک مکان میں پیش آیا۔ یہ دومنزلہ مکان ہے جس کی نچلی منزل پر واقعے کا واحد عینی شاہد عبدالمنان شیخ رہتا ہے جبکہ اوپری منزل میں ملزم اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ پولیس نے ابھی تک ملزم کانام ظاہر نہیں کیا ہے۔

ایک اطلاع کے مطابق ملزم کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ منشیات کا عادی ہے ۔ وہ کئی مرتبہ پہلے بھی بے حرمتی کا مرتکب ہوچکا ہے جس پر شاہدعبدالمنان شیخ اسے ٹوک بھی چکا ہے ۔

ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ شیخ، ملزم کی لانڈری میں کام کررہا تھا کہ واقعے کے وقت قرآنی صفحات سے بھرے پلاسٹک بیگ کے ساتھ تین نامعلوم افراداس سے ملنے آئے لیکن واپسی کے وقت وہ یہ بیگ یہیں بھول گئے جسے ملزم نے گلی میں سرراہ پھینک دیا ۔ ایک اور اطلاع میں کہا گیا ہے کہ جس وقت پولیس نے اسے حراست میں لیا وہ قرآنی صفحات ضائع کررہا تھا ۔

واقعے سے جڑی کچھ اطلاعات اس قسم کی بھی ہیں کہ ہندومذہب سے تعلق رکھنے والے ملزم نے ایک مسلمان لڑکے سے پانچ لاکھ روپے ادھار لئے تھے لیکن ملزم پیسے واپس نہیں کرپا رہا تھا جس پر دونوں کے درمیان اچھی خاصی گرماگرمی بھی ہوچکی تھی ۔ پیسے نہ دیئے جانے پر مسلمان نوجوان نے قرآنی صفحات پھاڑے اور اس کا الزام ملزم کے سر منڈھ دیا۔

خوفناک رد عمل
اس واقعے کی خبر جیسے ہی عام ہوئی کچھ نامعلوم افراد مشتعل ہوگئے اور انہوں نے قریبی دھرم شالہ اور مندر پر حملہ کردیا۔ فرنیچر ودیگر سامان کو آگ لگا دی ۔مندر میں رکھی مورتیوں کو نقصان پہنچایا اور توڑ پھوڑ شروع کردی۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر حالات پر قابو پایا اور ملزم کو اپنی تحویل میں لے کر اسے نامعلوم مگر محفوظ مقام پر منتقل کردیا جبکہ اس کے اہل خانہ نے لاڑکانہ کے مضافات میں واقع اپنے رشتے داروں کے گھر پناہ لی۔

رد عمل کے طور پرہی دو دنوں تک شہر میں کشیدگی رہی جبکہ واقعے کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ۔ اوستہ محمد میں ہندووٴں کی 10دکانوں کو بھی نذرآتش کردیا گیا۔ یہ پرتشدد واقعات ایسے موقع پر ہوئے جب اگلے دن یعنی اتوار کو ہندو برادری کو ہولی کاتہوار منانا تھا ۔

تفتیش کون کرے گا؟
اے ایس پی لاڑکانہ توقیر نعیم کے مطابق مذکورہ تمام اطلاعات کی ابھی تصدیق ہونا باقی ہے ، سچائی جاننے کے لئے تفتیشی ٹیمیں تشکیل دی جاچکی ہیں اور وہ خود بھی ایک ایسی ہی تفتیشی ٹیم کا حصہ ہیں۔

پولیس افسران، مذہبی دانشوروں اور ہندوٴ برادری کے بزرگوں پر مشتمل چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اس معاملے کا ہرپہلو سے جائزہ لے رہی ہے تاہم معاملے کی مکمل تفتیش میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا نقطہ نظر
تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں جبکہ الزام کی آزاد ذرائع سے تصدیق ہونا باقی ہے، مشتعل افراد کی جانب سے قانون کو ہاتھ میں لینا قطعی درست نہیں تھا۔ ان کے تئیں اس معاملے کی شفاف اور غیرجانبدانہ تفتیش ہونی چاہئے کیوں کہ املاک جلانے سے ملک کا نقصان ہے ،اس سے مذہبی کشیدگی بڑھے گی اور کچھ نہیں ہوگا۔
XS
SM
MD
LG