رسائی کے لنکس

درگاہوں کی حیرت انگیر دنیا


درگاہوں کی حیرت انگیر دنیا
درگاہوں کی حیرت انگیر دنیا

درگاہوں میں عقیدت مند وں پر ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ وہ دیواروں سے سر ٹکراتے ہیں، زمین پر اپنا ماتھا رگڑ رگڑ کرلہولہان ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھی تو بے ہوش بھی ہوجاتے ہیں

ملک کے ایک مشہور صوفی بزرگ کے عرس کی تقریبات کا آج پہلا روز تھا۔ صوبائی گورنر اور وزیر اوقاف نے ان تقریبات کا افتتاح کیا تھا۔ اب تک ہزاروں لوگ درگاہ کا رخ کرچکے تھے۔ یہاں تک کہ درگاہ پر تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔ خواتین، مرد، بچے اور بوڑھے جوق در جوق چلے آرہے تھے ۔ انہی میں سے ایک 18یا 20سال کی لڑکی ماہیہ بھی تھی۔ اس نے درگاہ میں مرکزی حال میں آتے ہی بے خودی کے عالم میں زور زور سے سرہلانا اوررہ رہ کر زمین پر لوٹنا شروع کردیا تھا ۔ اس کی اس حالت پر سبھی کی نظریں اور توجہ اس کی جانب اٹھ گئیں۔

درگاہ کے پچھلے حصے میں محفل سماع جاری تھی اور قوال اونچی آواز میں صوفیانہ کلام گارہے تھے۔ کلام کی دھن پر وہ لڑکی اپنے پر اور قابو نہ رکھ سکی اور زمین پر بیٹھ کر کمر کے بل زور زور سے جھومنے لگی۔ ایک ادھیڑ عمر کی خاتون اور ایک نوعمر لڑکا بھی اس کے ساتھ تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ لڑکی کی ماں اور بھائی ہے۔

چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ لڑکی کو دیکھنے والوں کی بھیڑ سینکڑوں تک پہنچ گئی ۔ ان افرادمیں لڑکی کے کچھ پرانے واقف کار بھی تھے جنہوں نے بتایا کہ لڑکی کو ’حال ‘ آرہے ہیں۔ یعنی یہ لڑکی درگاہ میں مدفن بزرگ سے عقیدت کے سبب بے خود ہوگئی ہے اور اس کا بس نہیں چل رہا کہ وہ اپناسر زمین سے ٹکرادے ۔ کئی بار ایسا لگا کہ بے خودی میں خود ہی اس کا سر کہیں زمین سے نہ لگ جائے مگر اسے اس کی قطعی فکر نہ تھی۔ اس پر تو وجدانی سی کیفیت طاری تھی۔

پاکستان کے مزاروں پر ایسے منظر عام بات ہیں۔ محکمہ اوقاف سندھ کے ایک عہدیدار معین الدین کے مطابق لڑکی کا ایسا کرنا کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا کیوں کہ ایسا تقریباً ہر روز اور ہرمزار پر ہوتا ہے۔ معین الدین نے وی او اے سے تبادلہ خیال کے دوران کہا کہ بزرگوں کے مزار پر عقیدت مند وں پرصرف’ حال ‘ہی نہیں آتے بلکہ کبھی کبھی ان پر ایسی کیفیت بھی طاری ہوتی ہے کہ جس سے وہ سر عام قلابازیاں کھانے لگتے ہیں، دیواروں سے سر ٹکرانے لگتے ہیں، زمین پر اپنا ماتھا رگڑ رگڑ کرلہولہان ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھی تو بے ہوش بھی ہوجاتے ہیں۔“

ایساکرنے والے کون لوگ ہوتے ہیں اور یہ ایسا کیوں کرتے ہیں ۔۔اس سوال کے جواب میں معین کا کہنا تھا ”بزرگوں کے مزارات اور درگاہوں پر آنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد کسی نا کسی معاشرتی ، ذاتی ، ازدواجی ، گھریلو اور کاروباری یا نوکری کے مسئلے میں گھری ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے دعاکرتے اور منت ماننتے ہیں۔ منت پوری ہونے میں دیر لگے تو یہ لو گ شدت جذبات سے مرغوب ہوکر وہ سب کچھ گزرنے کی کوشش کرتے ہیں جو دوسروں کے لئے ’قابل دید‘ بن جاتا ہے۔“

منتوں اور خواہشات کی اقسام یا طریقوں کے حوالے سے معین کا کہنا تھا کہ ”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے ۔۔۔کسی کو دفتری عہدوں اور ترقی کی چاہ ہوتی ہے تو کسی کو اچھی تنخواہ والی نوکری کی تلاش۔ کوئی کاروبار میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کا خواہشمند ہے تو کوئی بیٹے کی پیدائش کا متمنی۔ کسی کو بیٹیوں کے لئے اچھے رشتوں کی دعاکرنا ہوتی ہے تو کوئی مالی حالات کو درست کرانے کا آرزومند ہوتا ہے۔ کسی کو ازدواجی تعلقات میں خرابی کا غم ہے تو کوئی شوہر کو اپنا بنانے پر غم خوار ، نواجوں کو محبوب قدموں میں چاہئے تو ۔۔۔درجنوں افراد کو بیماریوں سے نجات۔ ان خواہشات کی کوئی انتہا نہیں۔ “

کچھ دیر کے توقف کے بعد وہ مزید بتاتے ہیں” رہی منتوں کو ماننے کا پورا کرنے کے طریقے تو اس کی بھی کوئی حد نہیں۔ کوئی یہ منت مانتا ہے کہ مزار پر نو جمعراتوں تک دیئے جلائے گا تو کوئی مزار کی جالیوں پر دھاگے باندھتا ہے۔ کوئی دیگ چڑھاتا ہے تو کوئی درجنوں بھوکوں کو کھانا کھلاتا ہے۔ کوئی ہزاروں روپے مزار وں پرکو چندے دیتا ہے تو کوئی ننگے پاوٴں مزارات کا رخ کرتا ہے۔ عورتیں سونا چاندی تک چڑھاتی ہیں۔ مزار پر چادروں چڑھانا ، گل پاشی کرنا، مزار کو غسل کرانا، درگاہ میں پانی پینے کے انتظامات ، بجلی کی فراہمی کے انتظامات ،چراغ جلانے کے لئے تیل کی ترسیل۔۔وغیرہ وغیرہ ۔ ہزاروں طریقے ہیں جو لوگ منت پوری ہونے پر اپناتے ہیں۔ “

پاکستان میں بزرگوں کے مزارات کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں اور دیہات میں بھی ایسے مزار موجود ہیں جن پر عقیدت مند ہر جمعرات ، جمعہ، عرس اور عام دنوں میں جاتے ، فاتحہ پڑھتے ، چادر و پھول چڑھاتے ہیں،منتیں مانی جاتی ہیں۔ کئی مزارات تو بہت سی کرامات کے لئے بھی مشہور ہیں ۔ مثلاً ایک مزار ایسا بھی ہے جہاں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اگر اس کے پانی میں غسل کر لیا جائے تو بہت سے جسمانی مرض دور ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ مرگی اور کورڑھ کا مرض بھی۔ اس روایت میں سچائی ہے بھی یا نہیں اس بحث سے درکنار کوئی نہ کوئی روایت کسی نہ کسی مزار کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔

سندھ میں ایک مزار کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں کینسر کے مریض کو کچھ دنوں کے لئے رہنے دیا جائے تو اس کا مرض ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک مزار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں زیادہ تر ایسے مریض آتے ہیں جن پر ”جنوں“ یا”بھوتوں“ کا سایہ ہو۔ ان مزاروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں بہت سے کرامات والے بزرگ بھی موجود ہوتے ہیں جو جن اتارنے کا فن جانتے ہیں۔

کراچی میں مقیم ایک حافظ قرآن قاری مشتاق کا کہنا ہے کہ جن برحق ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے آگ سے پیدا کیا ہے ، ان میں اچھے اور برے دونوں قسم کے جن ہوتے ہیں اور وہ انسانی روپ میں بھی آسکتے ہیں۔ عموماً اگر کسی انسان پر جن آجائے تو اسے ایسی ہی کسی درگاہ یا مزار پر علاج کی غرض سے بھیج دیا جاتا ہے “

برطانوی خبر رساں ادارے نے حال ہی میں جنوں کے انسانوں پر اثرات سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے ” ”اکثر لوگ دیگر عوامل پر غور کئے بغیر کاروبار میں گھاٹا، گھریلو جھگڑوں،بیماریوں ،شادی کا نہ ہونے جیسے عام زندگی کے مسائل کو بھی کسی دشمن کی طرف سے کرائے گئے بدعمل کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور اس کو دور کرانے کے لئے تعویز گنڈوں اور جھاڑ پھونک کا سہارا لیتے ہیں۔“

کراچی کے ایک مزار پر بال بکھرائے ،چیخیں مارتی ایک نوجوان لڑکی کے بھائی کو ،جو اسے وہاں لایا تھا، یقین تھا کہ جو کام ڈاکٹر نہیں کر پایا وہ یہاں ہو جائے گا ۔یعنی اس کی بیمار بہن جو بقول اس کے چھ سال کی عمر سے جن کے قبضے میں ہے مزار کی کرامت کے ذریعے اسے جن آزاد کر دے گا۔“

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے انتھروپولوجسٹ علی خان کا کہنا ہے ” جن کا انسانوں کے اندر داخل ہو جانا یا کاموں کا بنانا یا بگاڑ دینا ایک ایسا نظریہ بن چکا ہے جس کا فائدہ جادو ٹونے اور تعویز گنڈے کرنے والے اٹھا رہے ہیں۔“

ایک مزار کے باہر مدھم روشنیوں میں ڈیرہ جمائے بیٹھے ایک ’پیرصاحب‘ علی الدین جو سفید لباس میں ملبوس ہری ٹوپی پہنے ایک کاغذ پر آیات تحریر کرتے رہتے ہیں ۔کچھ دیر بعد انھوں نے وہ کاغذ پانی کے گلاس میں ڈبو کر اپنے سامنے بیٹھے بیوی کی نافرمانی سے تنگ آئے بجلی کا کام کرنے والے ایک شخص کو پینے کے لئے دے دیا۔ان صاحب نے اس یقین کے ساتھ وہ پانی پی لیا کہ دس منٹ کے بعد سے ان کا کام ہونا شروع ہوجائیگا۔

علی الدین کا دعوی ہے کہ انھوں نے آگ سے بنی اٹھارہ ہزار شیطانی قوتوں سے لڑ کر خاص طاقتیں حاصل کی ہیں۔اس کاروبارمیں مصروف دیگر افراد کی طرح علی الدین بھی جدیدوقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں۔ان کی اپنی ویب سائٹ ہے۔ ای میل اور موبائل کے ذریعے بھی وہ مشورہ فراہم کرتے ہیں۔

ہر نشست کے پچاس روپے سے لے کر ڈھائی سو روپے تک لینے والے علی الدین کا کہنا ہے کہ ’جن‘ انسانو ں پر قبضہ حسد، محبت اور دیگر وجوہات کی وجہ سے کرتے ہیں۔وہ انسانی جسم میں تیرتے ہیں اور وہیں سے غذا بھی حاصل کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ علاج کیس کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔

ٹھٹھ میں واقع عبداللہ شاہ اصحابی کے مزار پر موجود جمیلہ بی بی اپنے اٹھارہ سال کے بیٹے محمد کی وجہ سے پریشان ہے جسے چار ماہ قبل دورے پڑنا شروع ہوئے تھے۔ زنجیر سے بندھا دیوار سے ٹیک لگائے چپ چاپ بیٹھا محمدان لوگوں کو گھور رہا تھا جو یا تو اسی کی طرح زنجیر سے بندھے ہیں یا عبادت میں مصروف ہیں۔

گذشتہ چار سال سے ایک مزار پر موجودانتہائی لاغر اور یاد داشت کی کمی کا شکار رحیم یار نے اچانک چیخیں مارنا شروع کر دیں۔اس کا کہنا ہے کہ اس کے اندر موجود جن اسے بار بار بھارت کے ایک مندر میں جانے کو مجبور کر تا ہے جہاں انسانوں کی قربانی دی جاتی ہے۔وہ مجھے قربان کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔

XS
SM
MD
LG