رسائی کے لنکس

”پاکستان میں گردوں کے مریضوں کی تعدادمیں سالانہ 34ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے“


”پاکستان میں گردوں کے مریضوں کی تعدادمیں سالانہ 34ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے“
”پاکستان میں گردوں کے مریضوں کی تعدادمیں سالانہ 34ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے“

طبی ماہرین کے مطابق ذیابیطس ،بلند فشار خون اور گردوں میں پتھری کے امراض کے سبب ملک بھر میں 80فیصد لوگوں کے گردے خراب ہوجاتے ہیں، جنہیں بروقت تشخیص اور ڈائیلاسز کے مہنگے ترین علاج کی حکومتی سہولت میسرنہیں ۔ علاج سے محروم رہ جانے والوں کے لیے موت کا آخری راستہ باقی رہ جاتا ہے۔

گردے کی بیماریوں کی بین لاقوامی سوسائٹی،ذیابیطس کی عالمی فیڈریشن محکمہ صحت اور کڈنی فاؤنڈیشن کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے ہر حصے میں گردوں کے مرض میں مبتلا لاکھوں مریض موجود ہیں اور ان میں ہرسال 34ہزار نئے مریضوں کا اضافہ ہورہا ہے۔

جناح ہسپتال کراچی کے شعبہ امراض گردہ کے سربراہ پروفیسر منوہر لعل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گردے کی بیماریوں میں مبتلا سالانہ تقریباً دو لاکھ مریض موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں لگ بھگ پانچ سے چھ ہزار مریضوں کا ڈائیلاسز ہورہا ہے اور گردے کی پیوند کاری صرف پانچ سو مریضوں کی ہورہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ باقی مریضوں جو علاج کے لیے دوا کا اکتفا کرتے ہیں ان میں سے بھی اکثریت مہنگی دوائیاں نہیں خرید پاتی جس کی وجہ سے بیماری مزید بڑھ جاتی ہے۔

کڈنی فاؤنڈیشن کے چیئر مین پروفیسر جعفر نقوی نے گردے کے عالمی دن کے موقع پر وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے درپیش صورتحال کو خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہو اور صحت کا سالانہ بجٹ بھی برائے نام ہو تو گردوں کا تحفظ ممکن نہیں، لہذا ان کے بقول بچاؤ کی ماہرانہ تدابیر پر دھیان دیا جائے۔

طبی ماہرین کے مطابق خون کی صفائی کے لیے ڈائیلاسز کی سہولت مل جانے پر مریض اوسط سات برس جی سکتا ہے جب کہ پاکستان میں اوسط 20لاکھ آبادی کے لیے گردوں کا صرف ایک ڈاکٹر ہے۔

اس بار گردے کا بین لاقوامی دن اس تصور کے ساتھ منایا جارہا ہے کہ شوگر کی بیماری پر کنٹرول حاصل کرکے گردوں کے امراض سے بچا جاسکتا ہے۔

ورلڈ کڈنی ڈے پاکستان سمیت پوری دنیا میں گردوں کے تحفظ اور ان کی نگہداشت کی آگاہی فراہم کرنے کے لیے ہر سال 11مارچ کو منایا جاتا ہے۔

XS
SM
MD
LG