رسائی کے لنکس

جوہری سازوسامان کے بارے میں سربراہی کانفرنس


جوہری سازوسامان کے بارے میں سربراہی کانفرنس
جوہری سازوسامان کے بارے میں سربراہی کانفرنس

اگلے ہفتے واشنگٹن میں ایک 2 روزہ سربراہ کانفرنس شروع ہوگی جس میں توقع ہے کہ 40 سے زیادہ ملکوں کے سربراہ شرکت کریں گے ۔ یہ اپنی قسم کی پہلی میٹنگ ہوگی جس میں تمام تر توجہ اس مسئلے پر مرکوز ہو گی کہ نیوکلیئر سازو سامان کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے کیسے بچایا جائے۔

گلوبل نیوکلیئر سیکورٹی سمٹ کی تجویز صدر براک اوباما نے گذشتہ سال 5 اپریل کو جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ میں اپنی تقریر میں پیش کی تھی۔ اس تقریر میں انھوں نے ایسی دنیا کا تصور پیش کیا تھا جو نیوکلیئر اسلحہ سے پاک ہو۔’’میں ایک نئے بین الاقوامی پروگرام کا اعلان کر رہا ہوں جس کے تحت چار سال کے اندر دنیا بھر میں ایسے تمام نیوکلیئر میٹیریئل کو جو غلط ہاتھوں میں پڑ سکتا ہے ، محفوظ کر دیا جائے گا۔ہم نئے معیار قائم کریں گے ، روس کے ساتھ اپنے تعاون کو وسعت دیں گے ، اور نئی شراکت داریاں قائم کریں گے تا کہ یہ تمام حساس میٹیریل بالکل محفوظ ہو جائے۔‘‘

اگلے پیر اور منگل کو واشنگٹن میں ہونے والی یہ کانفرنس بین الاقوامی کوشش کا حصہ ہے۔ اس میں ایسے طریقے معلوم کیے جائیں گے جن کے ذریعے القاعدہ جیسے دہشت گرد گروپوں کو اعلیٰ قسم کا افژودہ شدہ یورینیم یا پلوٹینیم حاصل کرنے سے روکا جا سکے گا۔صدر اوباما نے اپنی پراگ کی تقریر میں کہا تھا کہ دہشت گرد گروپوں نے نیوکلیئر ہتھیار خریدنے، تیار کرنے یا چور ی کرنے کا عزم کر رکھا ہے ۔

نیوکلیئر سکیورٹی کی ماہر الیگزینڈر ٹوما کہتی ہیں کہ یہ خطرہ صحیح معنوں میں موجود ہے ۔ اس جنوری میں دونوں پارٹیوں کے دو کمیشنوں نے یہ کہا ہے کہ القاعدہ کی تنظیم 1990 کی دہائی سے نیوکلیئر اسلحہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔

لیکن ہارورڈ یونیورسٹی کے میتھیو بَن کہتے ہیں کہ نیوکلیئر بم بنانا آسان کام نہیں ہے۔’’کسی بھی دہشت گرد گروپ کے لیے یہ انتہائی مشکل ٹیکنییکل کام ہو گا۔ یہ ایسی چیز ہے جس کا امکان تو بہت زیادہ نہیں ہے لیکن اس کے نتائج اتنے ہولناک ہو سکتے ہیں کہ اگر اس کا امکان زیادہ نہ بھی ہو، توبھی ہماری تشویش بجا ہو گی۔‘‘

توقع ہے کہ سربراہ کانفرنس کے شرکاء بین الاقوامی تعاون میں اضافے اور دنیا بھر میں نیوکلیئر میٹیریلز کی سکیورٹی کو بہتر بنانے کے طریقوں پر توجہ دیں گے۔ بَن کہتے ہیں کہ ایک مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں ایسے کوئی ضابطے نہیں ہیں جن میں یہ وضاحت کی گئی ہو کہ نیوکلیئر ہتھیاروں یا نیوکلیر میٹیریلز کی کتنی حفاظت کی جانی چاہیئے ۔

چونکہ دہشت گردی کا خطرہ ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اس لیے جہاں کہیں بھی نیوکلیئر ہتھیار ہیں یا ایسا مواد ہے جو نیوکلیئر ہتھیار بنانے کے کام آ سکتا ہے، وہاں باہر سے مسلح گروپوں اور اچھی طرح تربیت یافتہ افراد کی کارروائی کا مقابلہ کرنے کا انتظام ہونا چاہیئے اور ابھی یہ انتظام سب جگہ موجود نہیں ہے ۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ کسی کو یہ بات معلوم نہیں کہ نیوکلیئر میٹیریل کے کتنے ذخائر موجود ہیں کیوں کہ ہر ملک یہ نہیں بتاتا کہ وہ کیا تیار کر رہا ہے ۔ Ken Luongo ریسرچ کرنے والی تنظیم، Partnership for Global Security کے سربراہ ہیں۔’’خاص طور سے سرد جنگ کے دوران، روس اور امریکہ نے فوجی مقاصد کے لیئے نیوکلیئر ہتھیار تیار کیے ۔ انھوں نے ایک دوسرے کو یا کسی بین الاقوامی تنظیم کو یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے کتنا نیوکلیئر اسلحہ تیار کیا ہے ۔پاکستانی اور بھارتی اس بات کو با لکل خفیہ رکھتے ہیں کہ وہ کتنا نیوکلیئر میٹیریل تیار کرتے ہیں۔ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اسرائیلیوں نے کتنا نیوکلیئر اسلحہ تیار کیا ہے ۔ مختصر یہ کہ ہمارے پاس کوئی صحیح پیمانہ نہیں ہے۔‘‘

Luongo کہتے ہیں کہ بہت سے ملکو ں کو نیوکلیئر دہشت گردی کے خطرے کا صحیح اندازہ نہیں ہے ۔ یہ بڑی عجیب سی بات لگتی ہے لیکن ہے بالکل صحیح۔ امریکہ اور اس کے بعض اہم اتحادی ملکوں اور باقی دنیا، خاص طور سے ترقی پذیر دنیا میں اس خطرے کا صحیح احساس نہیں ہے ۔

بَن جیسے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس سربراہ کانفرنس کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ خطرے کا احساس پیدا کیا جائے ’’میرے خیال میں اس سربراہ کانفرنس سے ایک عام سے اعلان جاری ہو گا جس میں کہا جائے گا کہ ہم سب کو نیوکلیئر دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیئں کیوں کہ یہ خطرہ صحیح معنوں میں موجود ہے ۔ ہم سب عہد کرتے ہیں کہ نیوکلیئر سکیورٹی کے اعلیٰ معیار قائم کریں گے۔ لیکن میرے خیال میں آپ کو بہت زیادہ ٹھوس تفصیلات نہیں ملیں گی، جن پر عمل در آمد کرنا آسان ہو۔‘‘

صدر اوباما اور ان کے روسی ہم منصب دمتری میدویدو نے حال ہی میں ایک نئے سمجھوتے پر اتفاق کیا ہے جس کے تحت دور فاصلے تک جانے والے نیوکلیئر ہتھیاروں کی تعداد کم کر دی جائے گی۔ماہرین کہتے ہیں کہ اس اقدام کا نیوکلیئر دہشت گردی کے بارے میں ہونے والی کانفرنس پر مثبت اثر پڑے گا۔

XS
SM
MD
LG