رسائی کے لنکس

زینت پیرزادہ اپنے فن کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتی ہیں


زینت پیرزادہ اپنے فن کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتی ہیں
زینت پیرزادہ اپنے فن کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتی ہیں

زینت پیرزادہ آج سے 19 سال پہلے ایران چھوڑ کرسویڈن میں آباد ہوگئیں تھیں ۔ آج ان کا شمار وہاں کی معروف مزاحیہ فنکاروں میں کیا جاتا ہے اور وہ کئی ایوارڈز بھی جیت چکی ہیں۔ وہ اپنے فن کے ذریعے لوگوں کی سوچ اور خیالات میں تبدیلی لانا چاہتی ہیں۔

انھیں سویڈش زبان میں مہارت حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ اس کی تعلیم حاصل پڑی تاکہ وہ اپنے کام میں اس کا صحیح استعمال کر سکیں۔ ان کے استاد خود بھی ایک مزاحیہ فنکار تھےاور انھوں نے زینت کو اس کام میں آگے بڑھنے میں مدد بھی فراہم کی۔

زینت کہتی ہیں کہ انھوں نے مجھ سے کہا ، تم جو بھی کہتی ہو، بغیر کوشش کے مزاحیہ ہوتا ہے ۔ اور پھر کچھ عرصے بعد ایک مشہور مزاحیہ فنکارہ، اینا لینا برنڈن نے مجھے اپنے شو سے پرفارم کرنے کےلیےکہا۔ مجھے مزاح کے بارے میں زیادہ پتا نہیں تھا اور نہ ہی میرا ارادہ اس طرف آنے کا تھا۔

اس پہلے موقع پر انھوں نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔ پھر انھوں نے اپنی دوسری ملازمت چھوڑ کر اس کام کو روزگار بنا لیا۔

اور آج وہ سویڈن کی مشہور مزاحیہ فنکارہ ہیں۔ انھیں سویڈن میں سال 2010 کی بہترین مزاحیہ فنکارہ کا ایوارڈ بھی ملا ہے۔

زینت کا کہناہے کہ میں ایک ایسے ملک میں کامیاب ہوئی جہاں غیر ملکیوں کے بارے میں کچھ زیادہ اچھے خیا لات نہیں پائے جاتے۔ اور مجھے خوشی اس بات کی ہےکہ مجھے ایک ایسا ذریعہ ملا جس سے میں اپنے دل کی بات لوگوں کے سامنے کر سکتی ہوں۔

کامیابی کا یہ راستہ زینت کے لیے بہت طویل بھی تھا اور کٹھن بھی۔ جب وہ ایران سے سویڈن آئیں تو انھیں اپنے بیٹے کے ساتھ ایک گھر کے تہہ خانے میں رہنا پڑا۔ لیکن انھوں نے ہمت نا ہاری۔

زینت کہتی ہیں کہ آپ جتنے زیادہ مایوس ہوتے ہیں مزاح آپ کے دل کو اتنی ہی تسلی پہنچاتا ہے۔ میرے دادا کہا کرتے تھے کہ ہر شخص کے دل میٕں خدا کا نور ہوتا ہے جو کبھی ماند نہیں پڑتا۔ میں نے ہمیشہ ایسے ہی سوچا کہ آپ جتنے بھی اداس ہو جائیں لیکن جب آپ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ زندگی رکتی نہیں اور میرے لیے مزاح زندگی کا ایک نیا راستہ بن گیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ زینت کا طنز و مزاح کا انداز نکھرتا گیا اور متنازعہ بھی ہوتا گیا۔ مقامی اور مسلمان قدامت پسندوں کی طرف سے موت کی دھمکیاں ملنےاور پولیس کے پہرے میں اپنا کام کرنےکے باوجود زینت نسلی تفاوت اور خواتین کے حقوق کے بارے میں بات کرنے سے نہیں رکتیں۔

وہ کہتی ہیں کہ سٹیج پر کچھ وقت گزارنے کے بعد مجھے شرمندگی سی ہوئی کہ میں معاشرتی مسائل کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتی ، جبکہ میرے پاس اس کا موقع بھی ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ کرنا میری ذمہ داری ہے ورنہ تو میں اپنا وقت ضائع کر رہی ہوں۔

وہ اپنے وقت کا نہایت ذمہ داری سے استعمال کرتی ہیں۔ 5 بچوں کی پرورش کے ساتھ وہ اس وقت تین مختلف کامیڈی کلبوں اور ایک پراجیکٹ پر بھی کام کررہی ہیں۔

زینت کہتی ہیں کہ یہ سویڈن کی خواتین کے بارے میں ہے۔ یہاں لوگ برابری کی بات کرتے ہیٕں۔ لیکن اگر آپ گہرائی میں جاکر دیکھیں تو مغرب اور مشرق کی عورت میں کوئی فرق نہیں۔ میں اپنے کام میں انھیں چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہوں۔

زینت سویڈن میں اپنے کام اور زندگی سے مطمئن ہیں لیکن وہ ایران میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہیں۔

زینت کا کہنا ہے کہ انھیں ان کے کام نے ایک نئی زندگی دی ہے اور اس کے ذریعے ہی سے وہ زندگی کے اونچے نیچے راستوں پر کامیابی سے سفر کرنے کے قابل ہوئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG