رسائی کے لنکس

افغان طالبان کی طرف سے جنگ میں ’بچوں کی بھرتی میں اضافہ‘: رپورٹ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ہیومن رائٹس واچ نے ایسے ہی ایک بچے کے رشتے دار کا انٹرویو کیا جس نے بتایا کہ طالبان عموماً چھ سال کی عمر کے بچوں کو مدرسے میں داخل کر لیتے ہیں جہاں انھیں سات سال تک مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔

انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان نے گزشتہ سال کے وسط سے مبینہ طور پر درجنوں بچوں کو اپنے ساتھ لڑائی میں شامل کیا ہے جو کہ بچوں کو جنگ میں استعمال کرنے کی ممانعت سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

بدھ کو جاری کردہ اپنی جائزہ رپورٹ میں "ایچ آر ڈبلیو" نے بتایا کہ طالبان ان بچوں کو مبینہ طور پر تربیت دے کر مختلف عسکری کارروائیوں میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ بم بنانا اور انھیں نصب کرنا بھی سکھاتے آ رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق صوبہ قندوز میں طالبان نے اپنے مدرسوں میں اضافہ کیا ہے جہاں 13 سے 17 سال کے بچوں کو تربیت دی جاتی ہے اور ان میں سے اکثر کو لڑائی کے لیے بھی بھیجا جاتا ہے۔

افغانستان سے متعلق ایچ آر ڈبلیو کی سینیئر محقق پیٹریشیا گوزمین کہتی ہیں کہ "طالبان کی طرف سے بچوں کی بڑی تعداد کو لڑائی میں جھونکنا جتنا غیر قانونی ہے اتنا ہی ظالمانہ بھی۔ افغان بچوں کو اسکول میں اور اپنے گھروں میں اپنے والدین کے ساتھ ہونا چاہیے نا کہ طالبان کی عسکریت پسندی کے ایندھن کے طور پر ان کا استحصال ہو۔"

ہیومن رائٹس واچ نے 13 ایسے بچوں کے رشتے داروں سے بات چیت کی جنہیں گزشتہ ایک سال کے دوران طالبان نے اپنے ساتھ لڑائی میں شامل کیا جب کہ اپنے اس دعوے کی تصدیق کے لیے تنظیم نے سماجی کارکنوں، سیاسی مبصرین اور اقوام متحدہ کے عہدیداروں سے بھی بات کی۔

گزشتہ سال طالبان کی کچھ دنوں کے قندوز پر قبضہ کر لیا تھا
گزشتہ سال طالبان کی کچھ دنوں کے قندوز پر قبضہ کر لیا تھا

تنظیم کا کہنا تھا کہ طالبان کے ان دعوؤں کے باوجود کہ وہ صرف ان جگنجوؤں کو بھرتی کرتے ہیں جو "ذہنی اور جسمانی طور پر بالغ" ہوں اور وہ "بغیر داڑھی کے لڑکوں کو بھی (جنگ کے لیے) استعمال نہیں کرتے، قندوز، تخار اور بدخشاں کے صوبوں میں ایسے بعض بچوں کو مدرسوں سے بھرتی کیا گیا جن کی عمریں 13 سال یا اس سے کم تھیں۔''

قندوز کے رہائشیوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ بھرتیوں اور کارروائیوں میں بچوں کو استعمال کرنے میں اضافہ طالبان کی طرف سے شمالی افغانستان میں اپنی مہم کو مہیمز کرنے کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے ایسے ہی ایک بچے کے رشتے دار کا انٹرویو کیا جس نے بتایا کہ طالبان عموماً چھ سال کی عمر کے بچوں کو مدرسے میں داخل کر لیتے ہیں جہاں انھیں سات سال تک مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔

ان کے بقول جب ان کی عمر 13 سال ہو جاتی ہے تو طالبان انھیں عسکری کارروائیوں، اسلحہ چلانے اور دیسی ساختہ بم بنانے کی تربیت دیتے ہیں۔

افغانستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت سے متعلق ایک غیرسرکاری تنظیم کے سربراہ لعل گل لعل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رپورٹ کے مندرجات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کو عسکری کارروائیوں کے لیے صرف طالبان ہی نہیں دیگر مسلح گروہ بھی استعمال کرتے آرہے ہیں جو کہ بچوں کے حقوق کے تمام بین الاقوامی قوانین اور میثاق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

مقامی ملیشیا کے مسلح افراد
مقامی ملیشیا کے مسلح افراد

"والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں، ہمارے پاس ایسی دستاویزات بھی ہیں کہ والدین کو خبر ہی نہیں کہ ان کے جو بچے مدرسوں میں پڑھنے گئے تھے پھر وہاں سے (منفی طور پر ان کی ذہنی تربیت کر کے) انھیں خودکش حملوں کے لیے استعمال کیا گیا۔"

انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں حکومت اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے آگاہی مہم تو چلائی جاتی رہی ہے لیکن دور افتادہ علاقوں کے لوگوں تک یہ پیغام موثر انداز میں نہیں پہنچ پا رہا۔

پیٹریشیا کا کہنا تھا کہ طالبان کی طرف سے لڑائی کے لیے بچوں کی بھرتی میں اضافہ افغانستان کے دیرینہ تنازع میں پھنسے والدین اور ان کے بچوں کے لیے مزید خوف کا باعث ہے۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ طالبان فوری طور پر بچوں کی بھرتی بند کریں اور پہلے سے شامل بچوں کو بھی فوری طور پر فارغ کریں یہاں تک کہ انھیں بھی جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے اس میں شامل ہوئے۔

XS
SM
MD
LG