رسائی کے لنکس

دماغ کے فیصلوں میں دل کا کام


تحقیق کے سربراہ پروفیسر ایگور گراسمین نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ دانشمندانہ استدلال تلاش کرنا خصوصی طور پر صرف دماغ اور ذہنی افعال کا نتیجہ نہیں ہے

نصرت شبنم

مشہور کہاوت ہے کہ فیصلے ہمیشہ دل و دماغ کی رضا مندی کے ساتھ کرنے چاہیئے اور اب سائنس دان بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حکمت دماغ کا اکیلا فعل نہیں ہے بلکہ عقلمندی کے فیصلوں کے لیے دل کی دھڑکنیں اور سوچ کا عمل ایک ساتھ ملکر کام کرتا ہے۔

کیا انسان کےدماغ پر دل کی حکمرانی چلتی ہے اس حوالے سے سائنس دانوں کا اب یہ ماننا ہے کہ دل کی دھڑکنوں کے اتارچڑھاؤ سے ایک شخص کی عقلمندی متاثر ہوتی ہے۔

کینیڈا کی واٹرلو یونیورسٹی کے ماہر نفسیات اور آسٹریلین کیتھولک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محققین کی ٹیم نے دانشمندانہ فیصلوں پر دل کی دھڑکنوں کے اثرات کی نشاندھی کرتے ہوئے بتایا کہ دل کی دھڑکن کی رفتار اور سوچنے کےعمل کے درمیان تعلق موجود ہے،جو پیچیدہ مسائل کے بارے میں عقلمندانہ وجوہات تلاش کرنے کے لیے ملکر کام کرتا ہے۔

تحقیق کے سربراہ پروفیسر ایگور گراسمین نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ دانشمندانہ استدلال تلاش کرنا خصوصی طور پر صرف دماغ اور ذہنی افعال کا نتیجہ نہیں ہے۔

ماہر نفسیات پروفیسر گراسمین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا چلا ہے کہ دل کی دھڑکنوں میں زیادہ مختلف حالتوں کے حامل افراد تیسرے شخص کے نقطئہ نظر سےسماجی مسائل کے بارے میں سوچنے کےقابل تھے۔ انھوں نے عقلمند استدلال کے لیے زیادہ سے زیادہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور وہ دل کی کم شرح رکھنے والوں کے مقابلے میں کم جانبدار تھے۔۔

محققین نے دعوی کیا کہ ہماری تحقیق سے اس بات کی نشاندھی ہوئی ہے کہ کم جسمانی سرگرمیوں کے دوران دل کی دھڑکنوں کی رفتار کا کم جانبدار اور عقلمندی کے فیصلوں کےساتھ تعلق ہے ۔

ایک شخص کی دل کی دھڑکنوں میں اکثر تبدیلیاں ہوتی ہیں حتی کہ جب وہ زیادہ فعال نہیں ہوتے ہیں یا آرام کی حالت میں بیٹھے ہوتے ہیں۔

دل کی شرح میں اتار چڑھاؤ دراصل دل کی دھڑکنوں کے درمیان وقفہ ہےجو انسانی اعضاء کو کنٹرول کرنے والے اعصابی نظام سے منسلک ہے ۔

یہ مطالعہ یونیورسٹی ویسٹرن سڈنی سے تعلق رکھنے والے 150 طالب علموں پر مشعمل تھا جن کی عمریں اوسطا 25 سال تھی ۔

جرنل 'فرنٹیئرز ان بی ہیوریل نیوروسائنس میں شائع ہونے والے تحقیق کے دوران شرکاء سے ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے کہا گیا جس میں انھیں سماجی مسائل کے حوالے سے ایک تیسرے شخص کے نقطہ نظر سے فیصلہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔

ہر ٹاسک کے اختتام پر محققین نے ای سی جی کا استعمال کرتے ہوئے شرکاء کے دل کی دھڑکنوں کی رفتار کو دیکھا۔

پروفیسر گراسمین نے کہا کہ ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ دل کی دھڑکنوں میں زیادہ اتار چڑھاؤ رکھنے والے افراد دماغ کے اعلی انتظامی افعال کےمالک ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ افراد زیادہ سمجھدار ہیں۔

انھوں نے دلیل پیش کی کہ ان میں سے کچھ لوگ اپنی علمی صلاحیتوں کو غیر دانشمندانہ فیصلوں کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں جبکہ،سمجھدار فیصلہ کرنے کے لیے انھیں اپنے انا پرست نظریات پر قابو پانے کی ضرورت ہوگی۔

XS
SM
MD
LG