رسائی کے لنکس

راحت اللہ پاکستانی


مزار قائد
مزار قائد

اسکی طبیعت میں ایک ضد سی آگئی۔ اپنے فیصلوں پر اڑ جانا اسکا معمول تھا اور اپنے نظریات میں معمولی سی لچک اسکے لیے ناقابل غور تھی۔ اسکے دوستوں نے کئی موقعوں پر اسے علاج کے لیے امریکہ آنے کو کہا لیکن اس نے ہمیشہ سختی سے منع کردیا۔

پارٹیاں بدلنے اور نئی پارٹیاں بنانےکی عادت پاکستانیوں کےلیے نئی نہیں ہے۔ پچھلے کالم میں انجمن ترقی علوم و فنون اور جنون کا ذکر تھا۔ اس انجمن میں کام کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد خیال گذرا کے امان اللہ خان اور رضوان اللہ خان کام تو اچھا کررہے ہیں لیکن اس اچھے کام کو صرف علوم و فنون تک ہی کیوں محدود رکھا جائے۔ جب جنون کی حدوں کو چھونے والے اس کام پر اتنا وقت اور توانائی صرف کی جارہی ہے تو کیوں نہ کینوس کو اور بڑا کیا جائے۔ لہذا، کچھ نوجوانوں کی پروازِ خیال پورے پاکستان تک جا پہنچی اور ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی جسے’ ہم سب پاکستانی ہیں‘ کا نام دیا گیا، اور ہم سب اسے پیار سے ’ہسپاہ‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ مجھے اسکا صدر منتخب کیا گیا، راحت اللہ فاروقی اسکے نائب صدر بنے، عقیل احمد قادری جنرل سیکریٹری اور سجاد انور منصوری سیکریٹری اطلاعات منتخب ہوئے۔

اس تنظیم کے پہلے ہی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہم سب اپنے نام کے ساتھ پاکستانی لگائیں گے۔ لہذا، ہم سب کا، آخری نام، پاکستانی ہوگیا۔ میں فیض الرحمن صدیقی کی بجائے فیض الرحمن پاکستانی اور راحت اللہ فاروقی ، راحت اللہ پاکستانی بن گئے۔ اس تنظیم کا ہر پریس ریلیز ہمارے ان نئے ناموں کے ساتھ ،صوبائی عصبیت اور فرقہ واریت کے خلاف جہاد کرنے والی تنظیم ’ہسپاہ‘ سے شروع ہوتا تھا۔ یاد رہے کہ یہ جنرل ضیاالحق کا دور تھا۔

راحت نے نہ صرف پاکستانی کا لاحقہ اپنے ساتھ برقرار رکھا، بلکہ کئی موقعے ملنے کے باوجود پاکستان چھوڑنے سے انکار کردیا۔ اس نے ہمیشہ شلوار قمیض زیب تن کیا۔ میں نے کبھی بھی اسے کسی اور لباس میں نہیں دیکھا۔

اس نے کراچی میں لوکل باڈیز کا انتخاب بھی راحت اللہ پاکستانی کے نام ہی سے لڑا اور اپنے حلقے میں مقبول ہونے کے باوجود ٹھیک ٹھاک شکست کھائی۔ کراچی میں چھوٹے بڑے سب ہی اسے راحت بھائی کہتے تھے۔ کچھ لوگ احتراما پاکستانی صاحب کہہ کر بھی مخاطب کرتے تھے۔

وقت گذرا تو ہم دوستوں کا گروپ بھی تتر بتر ہوگیا، میں امریکہ چلا آیا، سجاد لاہور چلا گیا، اور عقیل نے بھی امریکہ کی راہ لی۔ لیکن راحت ہم لوگوں کے اصرار کے باوجود اڑا رہا۔ انجمن ترقی علوم و فنون کے امان اللہ خان کے بعد اگر میں نے کسی اور کو بچوں کی اخلاقی اور پیشہ وارانہ تربیت کرتے ہوئے دیکھا ہے تو وہ راحت ہی تھا۔ ہسپاہ بنانے کے بعد کچھ اور دوستوں کی مدد سے ہم نے پاکستان اسٹوڈینٹس اکیڈمی کی بنیاد رکھی جہاں بچوں کو ٹیوشن پڑھائی جاتی تھی، اور تربیتی پروگرامز کیے جاتے تھے۔ راحت نے اس کام کو جاری رکھا۔ اسکی بےنیازی ، بے خودی، اور بے غرضی سےاسکے دوست نالاں ہی رہتے تھے۔ وہ انتہائی ذہین طالب علم تھا۔ قدرت نے اسے مالی آسودگی عطا کی تھی اور وہ خاموشی سے کئی غریب طلباء و طالبات کی مدد کرتا تھا۔ کئی غریب خاندان اسکی خاموش مدد کے لیے اس کے احسان مند تھے۔


راحت لاڈ پیار سے پلا بڑھا تھا ۔ لڑکپن میں ایک حادثے میں اپنی ایک ٹانگ گنوا بیٹھا تو ماں باپ اور بہن بھائیوں نے کچھ زیادہ ہی خیال کرنا شروع کردیا جس سے اسکی طبیعت میں ایک ضد سی آگئی۔ اپنے فیصلوں پر اڑ جانا اسکا معمول تھا اور اپنے نظریات میں معمولی سی لچک اسکے لیے ناقابل غور تھی۔ اسکے دوستوں نے کئی موقعوں پر اسے علاج کے لیے امریکہ آنے کو کہا لیکن اس نے ہمیشہ سختی سے منع کردیا۔ بڑا گھسا پٹا سا جملہ ہے لیکن واقعتا راحت اللہ پاکستانی کا جینا مرنا پاکستان کے لیے تھا۔ مجھ سے اسے ہلکا سا گلہ بھی تھا کہ میں ہسپاہ کا بانی ہونے کے باوجود امریکہ سدھار گیا! لیکن بقول شخصے۔۔اور معمولی تصرف کے ساتھ۔۔ پاکستانیت تو ایک کیفیت کا نام ہے، جسکا شکار تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ ہم دونوں ہی رہے۔ راحت تو راحت اللہ پاکستانی بن کر پاکستان میں ہی ڈٹا رہا ، لیکن میں نے امریکہ میں اپنی تعلیم کے دوران ہی لاس اینجلس سے ہفت روزہ پاکستان لنک شروع کردیا۔

راحت اللہ پاکستانی بہت سے لوگوں کے خیال میں پاکستانی ہونے کی وجہ سے مارا گیا۔ کرکٹ کا بے انتہا شوق تھا۔ پاکستان اور آسٹریلیا کا میچ جاری تھا، پاکستان کی کامیابی پر اتنا خوش اور جذباتی ہوگیا کہ اسے معمولی سا اسٹروک ہوگیا ۔ہر چند کہ وقت پر کراچی کے ایک مقامی نجی اسپتال لے جایا گیا لیکن بائیس دن موت و زیست کی کشمکش میں گزار کر یہ بلا کا پاکستانی چل بسا۔ معلوم ہوا کے اسپتال کے شعبہ انتہائی نگہداشت میں انفیکشن کی شرح 68 فی صد تھی۔ یہ ضدی پاکستانی اسٹروک سے تو سنبھل گیا اور ہوش میں آگیا ، لیکن ایک شفا خانے میں موجود انفکشن سے جان کی بازی ہار گیا۔ یہ اسکے مرنے کی عمر نہیں تھی! میں اب بھی سوچتا ہوں کہ اگر وہ امریکہ میں ہوتا تو شائد بچ جاتا!

اسکے انتقال کے کچھ ہی دن بعد میرا پاکستان جانا ہوا۔ اسکے بیٹے سے مل کر میرے آنسو رواں تھے۔ میں نے اس سے کہا، بیٹا اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ آجاؤ۔ اس بچے نے بغیر کسی تذبذب کے فوراً جواب دیا: ’فیض چاچو ہم پاکستان نہیں چھوڑیں گے‘۔
XS
SM
MD
LG