رسائی کے لنکس

شہری آبادیوں کو انتہا پسندی سے بچانے کے اقدامات پر زور


شہری معاشروں میں انتہاپسندی سے متعلق مسائل
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:43 0:00

شہری معاشروں میں انتہاپسندی سے متعلق مسائل

دو روزہ کانفرنس کا اہتمام کراچی یونیورسٹی کے 'ایریا اسٹڈی سینٹر فار یورپ' نے ہانس سیڈل فاونڈیشن کے تعاون سے کیا تھا۔

پاکستان کے لیے یورپی یونین کے قائم مقام سفیر اسٹیفے نو گیٹو نے کہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی سے متعلق حکومت پاکستان کو مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ توہین رسالت کےقانون کا بے جا استعمال روکنے کی ضرورت ہے۔

وہ کراچی کے ایک ہوٹل میں “شہری معاشروں میں انتہاپسندی سے متعلق مسائل“ پر بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کررہے تھے۔

دو روزہ کانفرنس کا اہتمام کراچی یونیورسٹی کے 'ایریا اسٹڈی سینٹر فار یورپ' نے ہانس سیڈل فاونڈیشن کے تعاون سے کیا تھا۔

کانفرنس کے شرکا سے خطاب میں اسٹیفے نو گیٹو نے اعتراف کیا کہ مسلمانوں کو یورپی معاشرے سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں بارآور نہیں ہوسکیں، اور نہ ہی مغرب اس معاملے کو سمجھ سکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شام کے مہاجرین کی آمد سے یورپ میں انتہاپسندی بڑھنے کا خدشہ ہے ۔ کوشش ہے کہ شامی مہاجرین کی آباد کاری کا معاملہ خوش اسلوبی سے حل کرلیا جائے۔

وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری برائے یورپ رفیع الزماں صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ شہری معاشروں میں انتہاپسندی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔ آپریشن ضرب عضب سے ملنے والی کامیابیوں کے بعد امید ہوچلی ہے کہ ایسے عناصر پر جلد ہی قابو پالیا جائے گا۔

ہانس سیڈل فاونڈیشن، جرمنی کے پاکستان میں نمائندے کرسٹوو ڈووارٹس کا کہنا تھا پاکستان کی شہری آبادی میں 2025ء تک 50 فی صد اضافہ ہوچکا ہوگا جس کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہوگا۔ ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ دے کر انتہاپسندی پر بہتر انداز میں قابو پایا جاسکتا ہے۔

ایریا اسٹڈی سینٹر فار یورپ کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ شجاعت نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں توازن کے لیے سماجی اور معاشرتی ہم آہنگی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ قدامت پسندی اور متشدد قدامت پسندی کا فرق واضح کرنا ہوگا۔

کانفرنس کی مختلف نشستوں میں نوجوانوں کو انتہاپسندی سے محفوظ رکھنے، شہری معاشروں میں مختلف اکائیوں کے درمیان روابط بڑھانے، سائبر کرائم بل 2015ء اور سوشل میڈیا کے ذریعے انتہا پسند نظریات کے فروغ کی روک تھام کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

فرانسیسی مصنف اور فلسفی اولیور مونگن کا کہنا تھا کہ فرانس میں انتہاپسندی سے شہری آبادی زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ ان کے بقول شام جاکر لڑنے والوں میں 30 فیصد وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا۔

سابق وفاقی وزیر جاوید جبار نے کانفرنس میں پیش کیے گئے اپنے مقالے میں بتایا کہ انتہا پسندی اور قدامت پسندی کو اسلام سے جوڑنا درست نہیں۔ انسانوں کو دیوتا کی بھینٹ چڑھانےکا عمل دین اسلام سے بہت پہلے سے جاری تھا۔اس کے علاوہ صلیبی جنگیں،انسانوں کو غلام بنانے اور دو عالمی جنگوں میں مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ آزاد مارکیٹ پالیسی کے نام پر منافع کا لالچ،معاشرے کی اصلاح کے لیے حکومت کے ناکافی اقدامات، سیاسی نظام کی کمزوری، نفرت پر مبنی لٹریچر کی تقسیم اور اسلحے کا آزادانہ استعمال وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے انتہاپسندی فروغ پاتی ہے۔

سابق سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے کہا کہ معاشروں میں انتہاپسندی بڑھنے کی وجہ انصاف نہ ملنے کا احساس ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے حکومتی اقدامات نظر آنے چاہئیں۔

پشاور یونیوسٹی کے کلیہ سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر عدنان سرور خان نے انتہاپسندی کے خاتمے میں مدرسوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے کردار پر اپنے مقالے میں بتایا کہ انتہاپسندی کا سارا الزام مدرسوں پر ڈالنا درست نہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے بعض نوجوان بھی اس مسئلے کا شکار ہیں۔ انہوں نے مدارس کے تعلیمی نصاب کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت پر زور دیا۔

جامعہ پشاور کی ہی لیکچرار ڈاکٹر شاہدہ امان نے کہا کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی موجودگی کے باعث نوجوانوں کے مزاج میں سخت گیری آئی۔

سابق سفیر انیس الدین احمد کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ نوجوانوں کو انتہاپسندی سے دور رکھنے کے لیے صحت مند پالیسیاں تشکیل دے۔ تعلیمی نصاب کی تیاری میں بھی اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ماضی کے ساتھ ساتھ روشن مستقبل کی تصویر بھی نظر آئے۔

برطانیہ سےاسکائپ کے ذریعے کانفرنس کے شرکا سے خطاب میں سول سوسائٹی کے نمائندے روس فرینیٹ نے بتایا کہ ان کی این جی او نے مختلف انتہاپسند تنظیموں کے نیٹ ورک کا حصہ بننے والے نوجوانوں سے رابطے کیے اور انہیں زندگی کے دھارےمیں دوبارہ لانے میں بڑی حد تک کامیاب رہی۔

پریسٹن یونیورسٹی اسلام آباد کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر بکر نجم الدین کا کہنا تھا کہ یورپ کو درپیش سیکورٹی خدشات میں بڑا کردار معاشرتی بے راہ روی کا ہے۔ اس سلسلے میں فرضی کہانیوں اور حقیقت کا دور تک واسطہ نہیں۔

XS
SM
MD
LG