رسائی کے لنکس

یمن کی جنگ پر بات چیت کے لیے پاکستانی وفد کا دورہ سعودی عرب


وزیر دفاع خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ تنازع کے حل کے لیے پاکستان کی طرف سے کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔

پاکستان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد مشرق وسطیٰ اور یمن میں جاری جنگ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے منگل کو سعودی عرب پہنچا۔

یہ وفد سعودی حکام سے تفصیلی ملاقاتوں میں اُن کی دفاعی ضروریات کا جائزہ لے گا اور وطن واپسی پر وزیراعظم نواز شریف کو ایک رپورٹ پیش کرے گا۔

وفد میں وزیردفاع خواجہ محمد آصف اور وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز، چیف آف جنرل اسٹاف محمد اشفاق اور پاکستان فضائیہ کے نائب سربراہ بھی شامل ہیں۔

سعودی عرب روانگی سے قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے پاکستان کے سرکاری میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ کوئی بھی فیصلہ ملک کے مفاد کو مد نظر رکھ کر ہی کیا جائے گا۔

’’یہ وفد (اس لیے جا رہا ہے کہ) بالمشافہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے، جو بھی پیش رفت ہو گی ہم واپس آئیں گے۔۔۔۔ جیسا میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہمارے آئینی ادارے ہیں، پارلیمنٹ اور باقی پاکستانی عوام کو اعتماد میں لے کر فیصلے کریں گے اور پاکستان کا جو مفاد ہے وہ اولین ہے۔‘‘

اُنھوں نے ایک مرتبہ پھر حکومت کے اس موقف کو دہرایا کہ سعودی عرب کی سرحدی خودمختاری یا جغرافیائی سالمیت کو اگر خطرہ ہوا تو پاکستان اُس کا دفاع کرے گا۔

’’ہمارا موقف بڑا واضح ہے کہ سعودی عرب کی جغرافیائی، سرحدی اور علاقائی سالمیت پر اگر کوئی آنچ آتی ہے تو ہم سعودی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیئے۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے، پاکستان کا اپنا ایک مقام ہے۔‘‘

پاکستان کی طرف سے یمن میں جنگ کے لیے فوجیں بھیجنے کے بارے میں مسلسل قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں لیکن وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ تاحال فوجیں بھیجنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

جب کہ پاکستانی فوج کے ترجمان نے بھی ایک بیان میں وضاحت کی کہ پاکستانی فوجی سعودی عرب میں مشترکہ مشقوں کے لیے موجود ہیں اور اُن کی تعیناتی جنگی مقاصد کے لیے نہیں ہے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر پیغام میں کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کی 'صمصام پنجم' نامی مشترکہ مشقیں 19 مارچ سے سعودی عرب میں شروع ہوئیں، جن میں 292 پاکستانی فوجی حصہ لے رہے ہیں۔

فوج کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کی مشترکہ مشقیں ہر سال ہوتی ہیں اور گزشتہ سال ان کا انعقاد پاکستان میں دریائے جہلم کے قریب کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی اور عرب اتحادیوں نے یمن میں شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیاں شروع کی تھیں اور سعودی عرب اس آپریشن میں شرکت کے لیے پاکستان سے بھی رابطہ کر چکا ہے۔

سعودی عرب کا ماننا ہے کہ یمن کی جائز حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے حوثیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے لیکن تہران ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ تنازع کا پرامن حل تلاش کیا جانا چاہیے۔

پاکستانی وفد نے گزشتہ ہفتے ہی سعودی عرب جانا تھا لیکن ہفتہ کو شروع ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس کے باعث یہ دورہ موخر کر دیا گیا تھا۔

عرب لیگ کے اجلاس میں رکن ممالک نے متفقہ طور پر ایک مشترکہ فورس تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا جس میں لگ بھگ 40 ہزار فوجی جنہیں لڑاکا طیاروں، بحری جہازوں اور توپے خانے کی مدد بھی حاصل ہوگی۔

پیر کو وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ تنازع کے جلد حل اور مسلمان ممالک کی یکجہتی کے لیے پاکستان کے وزیراعظم جلد ہی برادر ممالک کی قیادت سے رابطے کریں گے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ تنازع کے حل کے لیے پاکستان کی طرف سے کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔

’’پاکستان کی پالیسی ہمیشہ اُمہ کے اتحاد کے لیے رہی ہے اور وزیراعظم کی بھی یہ ہی خواہش ہے۔۔۔۔ ہماری تو خواہش ہو گی کہ مسلم اُمہ جو اس وقت انتشار کا شکار ہے اس میں اتحاد اور یگانگت بڑھے، بھائی چارہ بڑھے۔‘‘

اُدھر وزیراعظم نواز شریف نے منگل کو اسلام آباد میں ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں اُن کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز اور وزارت خارجہ کے دیگر اعلیٰ عہدیدار بھی شریک تھے۔

وزیراعظم نے یمن میں محصور پاکستانیوں کی جلد اور بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کی ہدایت کی۔ اتوار کو ایک ہوائی جہاز کے ذریعے لگ بھگ 500 پاکستانی شہریوں کو واپس لایا گیا جب کہ دیگر افراد کی واپسی کے لیے یمن کے پڑوسی ممالک سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG