رسائی کے لنکس

'تحفظِ پاکستان بل' پر 'ایچ آر ڈبلیو' کا اظہارِ تشویش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان کے ایوان بالا سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ مسودہ قانون ضروری نظر ثانی کے لیے واپس قومی اسمبلی کو بھجوا دے۔

انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ہیومین رائٹس واچ نے رواں ہفتے پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی سے منظور کیے گئے تحفظ پاکستان بل کو بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کے منافی قرار دیا ہے۔

جمعہ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ایشیا کے لیے تنظیم کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز کا کہنا تھا کہ "پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے قوانین کو بنیادی حقوق کو کم کرنے کے لیے استعمال نہیں ہونے دینا چاہیئے۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس کا تیار کردہ بل بین الاقوامی قوانین کے علاوہ پاکستان کے آئین میں درج بنیادی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتا۔"

بیان کے مطابق مجوزہ قانون اظہار رائے اور پرامن احتجاج جیسے ان بنیادی حقوق کے بھی منافی ہے جن کی پاسداری کے لیے شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی میثاق پر پاکستان 2010 میں دستخط کر چکا ہے۔

مزید برآں تنظیم نے خدشہ ظاہر کیا کہ بل کی موجودہ شکل نفاذ سے اسے پرامن مخالفین اور حکومتی پالیسیوں کے ناقدین کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان کے ایوان بالا سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ مسودہ قانون ضروری نظر ثانی کے لیے واپس قومی اسمبلی کو بھجوا دے۔

تحفظ پاکستان آرڈیننس پر گزشتہ سال 20 اکتوبر کو صدر ممنون حسین نے دستخط کیے تھے اور اس مسودہ قانون کو سات اپریل کو قومی اسمبلی میں حزب مخالف حتیٰ کہ اتحادی جماعت کے احتجاج کے باوجود منظور کر لیا گیا۔

حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اس بل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے جب کہ حزب مخالف کی دیگر جماعتوں کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں اس کی منظوری کی مزاحمت کی جائے گی۔ ایوان بالا میں حزب مخالف کو عددی اکثریت حاصل ہے۔
پاکستانی پارلیمان
پاکستانی پارلیمان

تاہم حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ قانون میں کسی بھی وقت ترمیم کی جا سکتی ہے اور حکومت ایسا کوئی قانون متعارف نہیں کروائے گی جو بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہو۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف اور انسانی حقوق کے چیئرمین محمود بشیر ورک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا۔

"جہاں تک بنیادی حقوق کا تعلق ہے وہ پاکستان کے آئین میں بڑے واضح طر پر درج ہیں اور کوئی قانون اس کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا یہ بڑی سیدھی سیدھی بات ہے۔۔۔مخصوص حالات کے پیش نظر امریکہ میں بھی برطانیہ میں بھی قوانین بنائے گئے ہیں یہ قانون کبھی کسی صورت بھی سیاسی انتقام کے لیے اگر استعمال ہوا تو ہم آگے بڑھ کر خود حکومت کا ہاتھ پکڑیں گے۔"

حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی و بدامنی کی غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اور سخت قوانین متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔

اپوزیشن کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے قانون ساز سینیٹر سعید غنی کہتے ہیں کہ اتفاق رائے کے بغیر منظور کیے گئے قانون کے درست نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

"ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سخت قوانین ہونے چاہیئں دہشت گردی سے متعلق، لیکن اگر آپ سخت قوانین بناتے ہیں اور اس پر اتفاق نہیں ہے تمام سیاسی جماعتوں کا تو میں سمجھتا ہوں کہ ان قوانین کے بجائے کسی فائدے کے نقصانات ہوں گے۔ یہ حکومت کو سمجھنا چاہیےکہ ایسے قوانین سے دہشت گردی تو پتا نہیں کتنی کم ہوگی لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ اسے بے گناہ لوگوں کے خلاف اور سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جائے۔"

اس مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کسی بھی شخص کو ملک کی سلامتی کے منافی کام کرنے کے شبے میں نوے دن تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ قانون میں ایسے کسی بھی اقدام کی وضاحت نہیں کی گئی اور اس بنا پر یہ خدشہ جنم لیتا ہے کہ اسے سیاسی طور پر مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔
مزید برآں صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں اور تیل کے ٹینکروں پر حملہ کرنے والوں اور انٹرنیٹ سے متعلق جرائم میں ملوث افراد کے خلاف بھی تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ تحفظ پاکستان بل میں دہشت گردی کی تعریف مہبم ہے جس کی وجہ سے اس کے درست انداز میں استعمال کیے جانے پر تحفظات پائے جاتے ہیں۔
XS
SM
MD
LG