رسائی کے لنکس

’امریکی مسلمان دولت اسلامیہ اور طالبان کے خلاف متحد ہیں‘


اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (اسنا) کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس کا مقصد امریکہ میں اسلام کے حقیقی تصور کو پھیلانا ’اور طالبان اور دولت اسلامیہ جیسی شدت پسند تنظیموں‘ کی مذمت کرنا تھا

واشنگٹن کے پریس کلب میں اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (اسنا) کی جانب سے منعقد کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں امریکہ سمیت دنیا بھر میں کہیں بھی ’اسلام کے نام پر دہشت گردی کی کارروائیوں‘ کی مذمت کی گئی۔

اس اخباری کانفرنس میں اسلامک سوسائٹی کے اہم اراکین نے شرکت کی۔

پریس کانفرنس کا مقصد 2001ء میں امریکہ میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی زور دینا تھا کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے اور دین ِاسلام میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔

پریس کانفرنس کے شرکاٴ کی جانب سے بطور ِخاص عراق میں ’آئی ایس آئی ایس‘ یا دولت اسلامیہ کی کارروائیوں پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔

دولت اسلامیہ ایک شدت پسند گروپ ہے جس نے اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر گذشتہ کچھ عرصے میں شام اور عراق کے بڑے علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا ہے۔

دولت اسلامیہ کی بے رحم کارروائیوں پر دنیا بھر کے ساتھ ساتھ امریکہ میں بھی غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور صدر اوباما نے امکان ظاہر کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو دولت اسلامیہ پر مزید فضائی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

دولت اسلامیہ نہ صرف عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر قابض ہو چکی ہے، بلکہ اقلیتوں کے اغوا اور سر ِعام قتل جیسی کارروائیوں میں بھی ملوث رہی ہے۔ یہ تنظیم اب تک کئی فوجیوں کے ساتھ ساتھ دو صحافیوں کے سر بھی قلم کر چکی ہے۔

واشنگٹن پریس کلب میں منعقد ہونے والی پریس کانفرنس سے خطاب میں آل ڈیلس ایریا مسلم سوسائٹی (ایڈمز) کے امام، محمد ماجد کا کہنا تھا کہ، ’دولت اسلامیہ جو کچھ بھی کر رہی ہے وہ اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ اور میرا نئی نسل کو مشورہ یہی ہوگا کہ اس شدت پسند تنظیم کی کسی بات پر بھی کان دھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے نظریات و عقائد اسلام سے متصادم ہیں‘۔

امام ماجد کا مزید کہنا تھا کہ، ’اسلام کا اصل پیغام ’امن‘ ہے اور انسانیت کو بچانا ہے نہ کہ نفرت کا پھیلاؤ۔ ہم پر بطور مسلمان دنیا کو متحد کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے نہ کہ اسے تباہ کرنے کی‘۔

’مفلحون‘ نامی تنظیم کی ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر، حمیرا خان کا اس موقعے پر کہنا تھا کہ، ’2001ء میں جو کچھ امریکہ میں ہوا وہ بہت غلط تھا۔ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم مسلمانوں کی نئی نسل کو اسلام کا اصل مقصد سمجھائیں اور اس کے لیے ہمیں باقاعدہ پروگرام وضع کرنے چاہئیں‘۔

حمیرا خان اس بات پر بھی زور دیتی دکھائی دیں کہ دور ِحاضر کے تقاضوں کو مد ِنظر رکھتے ہوئے سوشل میڈیا کی ویب سائیٹس کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیئے ’اور، ان ویب سائیٹس پر اسلام کے اصل پیغام کو پھیلانا چاہیئے‘۔

امام جوہری نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ، ’ہم لوگوں کو اس بات کی اجازت کیوں دیں کہ وہ دہشت گردی اور اسلام کے درمیان تعلق جوڑیں، کیونکہ اسلام قطعاً دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا‘۔

امام جوہری کا یہ بھی کہنا تھا کہ، ’امریکہ میں موجود مسجدوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے کردار کو سمجھیں اور انصاف کا پیغام پھیلائیں‘۔

اس موقعے پر، دیگر شرکائے محفل نے بھی چند اہم نکات اٹھائے جس میں جہاد اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں فرق واضح کرنے پر زور دیا گیا اور اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اسلام دیگر عقائد کے افراد کو ’کافر‘ نہیں گردانتا اور ان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کی تلقین نہیں کرتا۔

XS
SM
MD
LG