رسائی کے لنکس

ایران اور سعودی عرب کو تعلقات بہتر کرنے چاہیں: جواد ظریف


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ’’ایران اور سعودی عرب کو کئی سالوں سے تناؤ کا شکار تعلقات کو بہتر کرنا چاہیئے اور شام اور مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے کام کرنا چاہیئے۔‘‘

ایران اور سعودی عرب کے سفارت کاروں نے شام میں خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے اس ہفتے جرمنی میں ہونے والے مذاکرات میں حصہ لیا جس کے بعد ایران کی طرف سے دونوں حریف ممالک کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کی غیر معمولی کوشش کی گئی۔

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ’’ایران اور سعودی عرب کو کئی سالوں سے تناؤ کا شکار تعلقات کو بہتر کرنا چاہیئے اور شام اور مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے کام کرنا چاہیئے۔‘‘

گزشتہ سال یمن اور شام میں جنگوں کے باعث ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا اور دونوں فریق ایک دوسرے پر پورے مشرق وسطیٰ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

جنوری میں تعلقات اس وقت مزید خراب ہو گئے جب سعودی عرب نے معروف شیعہ عالم دین کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا۔ اس کے رد عمل میں ایران میں سعودی سفارتخانے پر مشتعل مظاہرین نے حملہ کر دیا جس کے بعد سعودی عرب نے ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔

مگر جواد ظریف نے جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے سکیورٹی کانفرنس میں تعاون کی امید کا اظہار کیا۔

’’ہمارا خیال ہے کہ ہمارے خطے میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں جسے ہم سب ایک بہتر مستقبل کے لیے ایران اور سعودی عرب کے باہمی تعاون کے بغیر حل کیا جا سکتا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو ’’مشترکہ خطرات‘‘ کا سامنا ہے جس میں داعش اور النصرہ فرنٹ شدت پسند گروہ شامل ہیں۔

داعش اور دہشت گردی کانفرنس میں کی گئی تقریروں کا اہم موضوع تھے۔ کئی مقررین نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے وسیع عالمی تعاون پر زور دیا۔

فرانس کے وزیر دفاع یاں ایو لدریاں نے کہا کہ داعش کی طرف سے عالمی خطرے سے نمٹنے کے لیے ناصرف فوجی طاقت کی ضرورت ہے بلکہ اس شدت پسند گروہ کے بنیادی ڈھانچے اور رسد کے نظام کر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی طاقتوں کو داعش کا مواصلات کا نظام توڑنے کے لیے مزید تعاون کی ضرورت ہے تا کہ وہ اپنا پروپیگنڈا نہ پھیلا سکے۔

عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے کہا کہ بیرونی عوامل نے داعش کی ملک میں موجودگی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

’’بدقسمتی سے دہشت گردوں، ترکی سے شام اور عراق آنے والے بیرونی دہشت گردوں کی آمد روکنے کے لی کافی کام نہیں کیا گیا۔‘‘

اردن کے شاہ عبداللہ نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ’’عالمی نقطہ نظر‘‘ سے ایک ’’جامع حکمت عملی‘‘ کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی طاقتیں صرف عراق اور شام میں داعش پر مرکوز رہ کر کامیاب نہیں ہوں گی ’’جب دیگر دہشت گرد گروہ اور ان سے وابستہ عناصر افریقہ اور ایشیا میں جڑ پکڑے رہے ہوں۔‘‘

سالانہ میونخ سکیورٹی کانفرنس میں عالمی سکیورٹی پالیسی پر بات چیت کی جاتی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اس کانفرنس میں ہفتے کو خطاب کریں گے۔

XS
SM
MD
LG