رسائی کے لنکس

کراچی: 'امپورٹڈ' برتن، وہ بھی 'سستے'


صدر کے ریگل چوک سے نیو ایم اے جناح روڈ لائنز ایریا تک دیگر لوازمات سمیت پرانے استعمال شدہ 'امپورٹڈ' برتنوں کے ٹھیلوں کی ایک لمبی قطار گاہکوں کے جھرمٹ میں گھری نظر آتی ہے۔ ہر کوئی اپنے من پسند اشیا سمیت ان استعمال شدہ برتنوں کی خریداری اور چناو اور بھاو تاو کرتا دکھائی دیتا ہے

کراچی: مہنگائی کے اس دور میں پاکستان میں رہتے ہوئے بیرون ممالک کے امپورٹڈ اشیا کی خریداری ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں تھی، مگر اب یہ آسان سی بات لگتی ہے۔

جی ہاں۔ یہ واقعی ایک آسان بات ہے۔ وہ یوں کہ ملک کے معاشی مرکز کہلانے والے شہر کراچی میں اب یہ ممکن ہے۔ شہر کراچی کے مرکزی علاقے صدر کے ریگل چوک پر باہر ممالک سے برآمد کئے گئے برتن اب بڑی بڑی دکانوں کے بجائے عام ٹھیلوں پر فروخت ہو رہے ہیں وہ بھی انتہائی سستے داموں۔

ان دنوں کراچی کے سب سے بڑے بازار صدر کے ریگل چوک سے نیو ایم اے جناح روڈ لائنز ایریا تک دیگر لوازمات سمیت پرانے استعمال شدہ 'امپورٹڈ' برتنوں کے ٹھیلوں کی ایک لمبی قطار گاہکوں کے جھرمٹ میں گھری نظر آتی ہے۔ ہر کوئی اپنی من پسند اشیا سمیت ان استعمال شدہ برتنوں کی خریداری اور چناو اور بھاو تاو کرتا دکھائی دیتا ہے۔

انہی میں ایک خاتون گاہک سے باتیں کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ استعمال شدہ اشیا کے صرف نچلے طبقے ہی کے افراد نہیں بلکہ اچھے کھاتے پیتے گھرانے کے افراد بھی خریدار ہیں۔

کراچی
کراچی

خاتون نے بتایا کہ یہ برتن استعمال شدہ تو ہیں مگر ان کی کوالٹی اچھی ہوتی ہے بعض اشیا تو بالکل نئی جیسی دکھائی دیتی ہیں باہر کے لوگ بھلےہی اسے فالتو سمجھ کر پھینک دیتے ہیں، مگر پاکستان میں اسکے اچھے دام لگتے ہیں۔ پتھارے والے منہ مانگے دام وصول کر رہے ہیں۔

ان پتھاروں اور ٹھیلوں پر بکنےوالے برتنوں میں کچن میں استعمال ہونےوالا سامان، کٹلری سیٹ، کراکری، شیشے اور چینی کے برتن شامل ہیں۔

اکثر دکاندار ان ٹھیلوں پر 'باہر کا مال، باہر کا مال' کی آوازیں لگا کر گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ریگل چوک صدر پر موجود ان درجنوں ٹھیلوں کے درمیان کھڑے اسی طرز کا ایک ٹھیلا لگائے

محمد خان نے بتایا کہ، 'یہ مال باہر سے لایاجاتا ہے۔ یہاں کا نہیں، بلکہ اسے لندن، امریکہ، یورپ جرمنی گوکہ پاکستان سے باہر دیگر ممالک سے منگوایا جاتا ہے۔

مختلف ممالک سے یہ اشیا امپورٹ ہو کر شپنگ کرکے پھر بڑے کنٹینروں کے ذریعے کراچی لائی جاتی ہیں۔ پھر یہاں اس سارے سامان کی بولیاں لگتی ہیں جنھیں ہم اسٹاک کے حساب سے خریدتے ہیں۔ اسمیں الیکٹرانک کی اشیا، کھلونے، برتن اور استعمال شدہ اشیا ہوتی ہیں۔ فی کنٹینر کے حساب سے سارے سامان کی بولی لگتی ہے اور ہم پتھارے والے جاکر خریدتے ہیں اور ٹھیلوں پر اسے مختلف داموں میں بیچتے ہیں۔

کراچی شہر کے ریگل چوک سمیت شہر کی دیگر مارکیٹوں اور ہفتے اور اتوار کے دنوں سے مخصوص بازاروں میں بھی استعمال شدہ امپورٹڈ کہلانےوالی اشیا بڑے پیمانے پر عام فروخت کی جا رہی ہیں۔

بیرون ممالک سے امپورٹ کی گئی دیگراستعمال شدہ اشیا کی طرح پرانے برتنوں کے یہ پتھارے روز بروز ایک مارکیٹ کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں، جس سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ پاکستان میں استعمال شدہ اشیا کی ایک بڑی 'مارکیٹ' اور اہمیت ہے ان اشیا سےجہاں امپورٹرز کا کاروبار وسیع ہوتا جا رہا ہے، وہیں یہ پتھارے لگانے والے درجنوں افراد کی کمائی کا ذریعہ روزگار بھی بن رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG