رسائی کے لنکس

ووٹوں کا جائزہ 'کڑوی گولی' سمجھ کر قبول کیا، کرزئی


افغان صدر کے بقول انہوں نے امریکی وزیرِ خارجہ کی کوششوں سے افغان صدارتی امیدواروں کےد رمیان طے پانے والے معاہدے کا خیر مقدم نہیں کیا۔

افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ انہوں نے افغان صدارتی انتخاب میں ڈالے گئے تمام ووٹوں کے جائزے سے متعلق امریکی اعلان کو بادلِ نخواستہ قبول کیا ہے۔

افغان صدر کے بقول انہوں نے امریکی وزیرِ خارجہ کی کوششوں سے افغان صدارتی امیدواروں کےد رمیان طے پانے والے معاہدے کا خیر مقدم نہیں کیا بلکہ سیاسی معاملات میں تعطل کے باعث اسے ایک "کڑوی گولی' سمجھ کر قبول کیا ہے۔

'وائس آف امریکہ' کی افغان سروس کو دیے جانے والے ایک خصوصی انٹرویو میں افغان صدر نے کہا ہے کہ انہوں نے ووٹوں کے جائزے سے متعلق معاہدے کو اس لیے تسلیم کیا ہے کیوں کہ انتخابی عمل میں ان کے ملک کا پہلے ہی بہت سا وقت ضائع ہوچکا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ عمل جلد سے جلد مکمل ہو۔

انہوں نے کہا کہ افغان عوام اپنے نئے صدر کے انتخاب کا اعلان سننے کے لیے بے چینی سے منتظر ہیں اور اسی لیے انہیں انتخابی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ووٹوں کے از سرِ نو جائزے کا فیصلہ قبول کرنا پڑا۔

صدر کرزئی نے کہا کہ افغانستان کے انتخابی نظام کو بھی درست کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ دنیا کے کسی ملک میں بھی انتخابات کا عمل اتنا طویل عرصہ نہیں چلتا۔

'وی او اے- افغان سروس' کی میزبان شائستہ سعادت کے ساتھ کابل کے صدارتی محل میں گفتگو کرتے ہوئے افغان صدر کا کہنا تھا کہ وہ معاہدے میں شامل قومی حکومت کے قیام کی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہیں کیوں کہ اس کے نتیجے میں افغانستان کے تمام طبقوں کو حکومت میں نمائندگی مل سکے گی۔

لیکن صدر کرزئی نے ان خبروں پر دبے لفظوں میں تحفظات کا اظہار کیا جن کے مطابق افغان صدارتی امیدواروں – عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی- کے درمیان ملک میں پارلیمانی طرزِ حکومت متعارف کرانے پر اتفاقِ رائے ہوگیا ہے۔

صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پارلیمانی طرزِ حکومت نافذ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ملک میں ادارے مضبوط کیے جائیں، افسر شاہی کو سیاست سے پاک کیا جائے اور قانون کی بالادستی یقینی بنائی جائے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمانی نظامِ حکومت نافذ کرنے سے قبل فوج اور عدلیہ جیسے اداروں کو سیاسی مداخلت سے بچانے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے اور اس کام میں بہت وقت لگ سکتا ہے۔

صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بعد جو امیدوار بھی صدارتی انتخاب کا فاتح قرار پایا، وہ اس کی حمایت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر آئندہ صدر یا حکومت کو کبھی ان کے مشورے کی ضرورت پڑی تو وہ نئی حکومت کی مدد اور اس کے استحکام کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG