رسائی کے لنکس

افغانستان میں امن کے لیے بات چیت جائز ہے: ملا عمر


اپنے پیغام میں، ملا عمر نے کہا ہے کہ ’مسلح جہاد کے ساتھ ساتھ مقاصد کے حصول کے لیے سیاسی سرگرمیاں اور پُرامن راستہ اختیار کرنا اسلامی اصولوں کے مطابق جائز ہے‘

افغان طالبان کے امیر ملا عمر نے اپنی مسلح تحریک کے لوگوں کی حکومت سے بات چیت کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن کے لیے مذاکرات جائز ہیں۔

عید الفطر سے قبل بدھ کو جاری کردہ اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ "مسلح جہاد کے ساتھ ساتھ مقاصد کے حصول کے لیے سیاسی سرگرمیاں اور پرامن راستہ اختیار کرنا اسلامی اصولوں کے مطابق جائز ہے۔"

2001ء کے بعد سے یہ معلوم نہیں کہ ملا عمر کہاں ہیں۔

ملاعمر نے کہا کہ سیاسی سرگرمیوں، دنیا کے مختلف ملکوں اور افغانوں سے بات چیت میں شرکت کا مقصد "افغانستان سے قبضے کا خاتمہ اور یہاں ایک آزاد اسلامی نظام نافذ کرنا ہے۔"

اُنھوں نے کہا کہ مذہب میں پرامن انداز میں دشمنوں کے ساتھ میل ملاقات کی ممانعت نہیں لیکن " اسلام کے اصولوں اور مذہبی احکامات سے انحراف غیر قانونی ہے۔"

پاکستان نے رواں ماہ کے اوائل میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کی پہلی براہ راست ملاقات کا انتظام کیا تھا۔ اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں ہونے والی اس ملاقات میں امریکہ اور چین کے نمائندے بھی موجود تھے۔

پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے ان مذاکرات میں دونوں فریقوں نے بات چیت کا عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا اور توقع ہے کہ رمضان کے بعد مذاکرات کا ایک اور دور ہو گا۔

ملا عمر نے اپنے پیغام میں پاکستان میں ہونے والے مذاکرات کے بارے میں تو کوئی اظہار خیال نہیں کیا لیکن پہلی مرتبہ انھوں نے طالبان کو "پاکستان کے ایجنٹس" قرار دینے کے تاثر کو مسترد کیا۔

"بعض حلقے مجاہدین پر پاکستان اور ایران کے ایجنٹس ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ نہ ہی ماضی اور نہ ہی موجودہ حالات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے نہ صرف پاکستان اور ایران بلکہ دیگر پڑوسی ممالک سے "قریبی تعلقات ہیں"۔

جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان سے گزشتہ سال کے اواخر میں بین الاقوامی افواج کا انخلا مکمل ہو گیا تھا لیکن اب ایک معاہدے کے تحت تقریباً 12000 فوجی یہاں موجود ہیں جو مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ ان میں اکثریت امریکی اہلکاروں کی ہے۔

XS
SM
MD
LG