رسائی کے لنکس

قومی کی دو، صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر ضمنی انتخاب


فائل فوٹو
فائل فوٹو

گو کہ انتخابات تین حلقوں میں ہو رہے ہیں لیکن پاکستان میں سب سے زیادہ توجہ حلقہ این اے 122 پر مرکوز ہے جہاں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ایاز صادق اور حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے علیم خان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کے دو اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے لیے اتوار کو ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالے گئے۔

لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 اور اوکاڑہ سے این اے 144 جب کہ لاہور ہی سے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 147 میں پولنگ ہوئی۔

گو کہ انتخابات تین حلقوں میں ہو رہے ہیں لیکن پاکستان میں سب سے زیادہ توجہ حلقہ این اے 122 پر مرکوز ہے جہاں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ایاز صادق اور حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے علیم خان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

ایاز صادق 2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو شکست دے کر اس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے اور بعد ازاں قومی اسمبلی کے اسپیکر کے منصب پر فائز ہوئے۔

لیکن تحریک انصاف نے اس حلقے میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے تنائج کے خلاف الیکشن ٹربیونل میں شکایت جمع کروا رکھی تھی جس کا فیصلہ اگست کے اواخر میں آیا جس کے تحت یہاں دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم دیا گیا۔

دونوں جماعتیں اس حلقے میں اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کرتے ہوئے بھرپور مہم چلاتی آئی ہیں اور ذرائع ابلاغ نے بھی صرف اسی حلقے پر خاص توجہ مرکوز کرتے ہوئے یہاں کی لمحہ بہ لمحہ کوریج شروع کر رکھی ہے۔ اسی حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹر میاں عامر حسن بھی میدان میں ہیں۔

یہاں 284 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے اور رجسٹرڈ ووٹر کی تعداد تین لاکھ چالیس ہزار ہے۔

لاہور ہی سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 147 میں مسلم لیگ ن کے محسن لطیف، تحریک انصاف کے محمد شعیب صدیقی اور پیپلز پارٹی کے افتخار شاہد مرکزی امیدواروں میں شامل ہیں۔

اوکاڑہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 144 میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے چودھری علی عارف، پاکستان تحریک انصاف کے محمد اشرف سوہنا اور آزاد امیدوار چودھری ریاض الحق کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔

اوکاڑہ کے اس حلقے میں 210 پولنگ اسٹیشن قائم ہیں جب کہ یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد تین لاکھ 14 ہزار کے لگ بھگ ہے۔

ضمنی انتخابات کے موقع پر کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے پولیس اور رینجرز کے علاوہ فوج کے جوان بھی تعینات کیے گئے۔

کہیں کہیں مخالف جماعتوں کے کارکنوں میں ہاتھا پائی کے علاوہ مجموعی طور پر تاحال کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

پولنگ صبح آٹھ بجے شروع ہوئی جو بغیر کسی وقفے کے شام پانچ بجے تک جاری رہی۔

XS
SM
MD
LG