رسائی کے لنکس

کوئٹہ میں انسداد پولیو مہم کے دوران سکیورٹی مزید سخت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صوبے میں انسداد پولیو اور حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر اسحاق پانیزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بلوچستان میں اس سال اب تک پولیو کے 14 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں سے پانچ کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔

کوئٹہ کے نواحی علاقے مشرقی بائی پاس میں رواں ہفتے انسداد پولیو ٹیم پر ہلاکت خیز حملے کے باوجود بلوچستان میں پولیو سے بچاؤ کی ویکسین اور حفاظتی ٹیکوں کی مہم بدستور جاری ہے۔

لیکن اس کی حکمت عملی میں سکیورٹی خدشات کے باعث کچھ ردوبدل کیا گیا ہے۔

صوبے میں انسداد پولیو اور حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر اسحاق پانیزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بلوچستان میں اس سال اب تک پولیو کے 14 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں سے پانچ کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس تشویشناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک ہفتہ کی اس مہم کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

"ظاہر ہے ہم اس کو روک نہیں سکتے کیونکہ اگر ہم روکیں گے تو جو لوگ یہ کر رہے ہیں وہ شاید یہ سمجھیں کہ حکومت یا انتظامیہ ڈر گئی ہے تو ہم نے مہم کو گھر گھر لے جانے کی بجائے جو ہمارے مراکز ہیں وہیں تک محدود کر دیا ہے تو بہت سے لوگ اب خود اپنے بچوں کو یہاں لے کر آرہے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ بدھ کو پیش آنے والے واقعے کے بعد سکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کر دیے گئے ہیں اور پولیس اہلکار اب زیادہ چوکس ہو کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

بدھ کو نامعلوم افراد کی طرف سے انسداد پولیو ٹیم پر حملے میں تین خواتین سمیت چار افراد ہلاک اور تین زخمی ہو گئے تھے۔ پولیس نے متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے لیکن تاحال اس واقعے میں ملوث عناصر کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔

صوبائی پولیس کے سربراہ نے مشرقی بائی پاس کے واقعے میں غفلت برتنے پر دو افسران کو بھی معطل کر دیا ہے۔

ڈاکٹر پانیزئی کا کہنا تھا کہ لوگوں میں پولیو کے خلاف شعور کو مزید اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انسداد پولیو مہم میں ہر بچے تک ویکسین کی رسائی کو یقینی بنا کر اس موذی وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

"یہ پورے پاکستان کا المیہ ہے، ہم نے پولیو کو ختم کرنا ہے کیونکہ پوری دنیا میں بدنامی پاکستان کی ہو رہی ہے اور وہ بھی ایک ایسی بیماری کی وجہ سے جس کا علاج موجود ہے۔ صرف لوگ میں شعور اتنا زیادہ نہیں ہے اور جو غلط پروپیگنڈا چل رہا ہے اس پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ تو ہم لوگوں کو جو پیغام دینا چاہتے ہیں اس کو لوگ ابھی سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔"

صوبائی محکمہ صحت نے بلوچستان کے آٹھ اضلاع میں پولیو ویکسین اور حفاظتی ٹیکہ جات کے لیے دو ہزار سے زائد ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں جن کا ہدف چھ لاکھ ستر ہزار سے زائد بچوں تک پہنچنا ہے۔

ماہرین کے بقول انسانی جسم کو مفلوج کر دینے والی بیماری پولیو سے بچاؤ کے لیے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو ویکسن پلانا اشد ضروری ہے تاکہ اس وائرس کے خلاف بچوں میں قوت مدافعت پیدا ہو سکے۔

پاکستان میں رواں سال پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد 240 سے تجاوز کر چکی ہے جو کہ اس وائرس کے پھیلاؤ کی تشویشناک صورتحال کو ظاہر کرتی ہے۔

XS
SM
MD
LG