رسائی کے لنکس

انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواستیں مسترد


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اُدھر پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’’جو ممبر پارٹی کے فیصلے کے مطابق مستعفی ہو گا، وہ پارٹی سے فارغ ہے، وہ تحریک انصاف کا حصہ نہیں ہو گا۔‘‘

پاکستان کی عدالت عظمٰی نے ملک میں مئی 2013ء کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے سے متعلق درخواستوں کو نا قابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

سپریم کورٹ میں تین مختلف افراد کی جانب سے دائر درخواستوں میں کہا گیا کہ مئی 2013ء کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی اس لیے اُنھیں کالعدم قرار دے دیا جائے۔

درخواست گزاروں میں عدالت عظمٰی کے سابق جج محمود اختر صدیقی بھی شامل تھے۔

تاہم چیف جسٹس ناصر الملک کی قیادت میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے ان درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئیں کے آرٹیکل 225 کے تحت انتخابات سے متعلق شکایات کو الیکشن ٹریبونل میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ آئین کی پاسداری کرنا سپریم کورٹ کی اولین ذمہ داری ہے اور آئین کو کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی اُمور عرفان صدیقی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عدالت نے قانونی نکات کی بنیاد پر ان درخواستوں کو نمٹایا لیکن اُن کے بقول بظاہر ایسے ٹھوس شواہد اب تک سامنے نہیں لائے گئے ہیں جن کی بنا پر 2013ء کے انتخابات کو مکمل طور پر کالعدم قرار دیا جا سکے۔

’’عملاً ہم نے دیکھا ہے کہ جو الزامات لگے ہیں۔۔۔ اُن کے حق میں کوئی ثبوت نہیں لایا گیا۔‘‘

تحریک انصاف کے استعفوں کا معاملہ

اُدھر تحریک انصاف کے اراکین اپنے استعفوں کی تصدیق کے لیے بدھ کو قومی اسمبلی میں اسپیکر ایاز صادق کے دفتر پہنچے لیکن اُنھوں نے فرداً فرداً اسپیکر کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ وہ تمام کے تمام ایک ساتھ ہی پیش ہونا چاہتے ہیں۔

لیکن بعد میں اسپیکر کے سامنے پیش ہوئے بغیر ہی تحریک انصاف کے اراکین وہاں سے چلے گئے۔

پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’’جو ممبر پارٹی کے فیصلے کے مطابق مستعفی ہو گا، وہ پارٹی سے فارغ ہے، وہ تحریک انصاف کا حصہ نہیں ہوگا۔‘‘

شاہ محمود قریشی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے اراکین اسمبلی کو حکومت نے نجی طور پر رابطہ کر کے "رشوت کے طور پر وزارتیں دینے کی پیشکش بھی کی۔"

لیکن حکومتی عہدیداروں نے ان کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے 34 اراکین قومی اسمبلی میں سے ایک جاوید ہاشمی پہلے مستعفی ہو کر پارٹی سے الگ ہو چکے ہیں جب کہ تین دیگر اراکین اسمبلی نے مستعفی نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ پارلیمان کے اجلاس میں بھی شرکت کر رہے ہیں۔

بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بدھ کی شام پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ تحریک انصاف کے 25 اراکین آئے تھے لیکن اُنھوں نے تصدیق کے لیے فرداً فرداً پیش ہونے سے انکار کیا۔

’’میری ذمہ داری ہے، کہ رضا کارانہ اور حقیقی طور پر استعفوں کی تصدیق اکیلے میں ہو سکتی ہے اتنے ہجوم میں نہیں ہو سکتی۔ ‘‘

اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ وہ اس ساری صورت حال سے الیکشن کمیشن کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کر دیں گے۔

’’اب میرے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ میں الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر یہ سب کچھ اُن کے علم میں لے آؤں گا۔‘‘

تحریک انصاف مئی 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے حکومت کے خلاف احتجاج میں مصروف ہے اور جماعت کے چیئرمین عمران خان وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے تحریک انصاف کا احتجاجی دھرنا اب بھی جاری ہے۔

XS
SM
MD
LG