رسائی کے لنکس

تحفظ پاکستان بل سینیٹ میں پیش


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

تاہم حزب مخالف کی جماعتوں کا موقف تھا کہ اس بل پر انسانی حقوق کی تنظیمیں تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں اس لیے اس مجوزہ قانون میں ضروری تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔

پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں جمعہ کو انسداد دہشت گردی سے متعلق تحفظ پاکستان آرڈیننس منظوری کے لیے پیش کیا گیا، جس پر ایوان میں حزب مخالف کی جماعتوں نے شدید احتجاج کیا۔


سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر زاہد حامد نے تحفظ پاکستان بل سینیٹ میں پیش کیا، قومی اسمبلی پہلے ہی اس بل کی منظوری دے چکی ہے۔


زاہد حامد نے کہا کہ حکومت نے مجوزہ قانون میں نمایاں تبدیلیاں کی ہیں، اُنھوں نے تحفظ پاکستان بل میں گرفتاریوں سے متعلق شقوں کے بارے میں کہا کہ یہ پہلے سے انسداد دہشت گردی کے ایکٹ میں موجود ہیں۔


تاہم حزب مخالف کی جماعتوں کا موقف تھا کہ اس بل پر انسانی حقوق کی تنظیمیں تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں اس لیے اس مجوزہ قانون میں ضروری تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔


بعد میں اس بل کو جائزے کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی میں بجھوا دیا گیا۔


حزب اختلاف اور حکومت کی بعض اتحادی جماعتوں نے بھی قومی اسمبلی میں اس بل کی سخت مخالفت کی تھی تاہم حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو ایوان زیریں میں واضح برتری حاصل ہے اس لیے اُس نے اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود عجلت میں اس بل کو منظور کروا لیا تھا۔


حزب مخالف کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی عاصم حسنین کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں تحفظ پاکستان بل کی موجودہ صورت میں منظوری کی مخالفت کر چکی ہیں۔


اُن کے بقول اگر یہ منظور ہو بھی گیا تو اس کو عدالت میں چیلنج کر دیا جائے گا۔


حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ملک ابرار کہتے ہیں کہ تحفظ پاکستان نامی مجوزہ قانون کو منظور کروانے کا مقصد ملک میں امن کا قیام ہے۔

''ہم چاہ رہے کہ اس سے ملک میں امن قائم کر سکیں، امن ہی سے ترقی ممکن ہے۔''


رواں ہفتے ملک کے سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان ایک ملاقات میں دیگر اُمور کے علاوہ تحفظ پاکستان آرڈیننس پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔


ملاقات میں شریک سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے اپنے تحفظات سے حکومت کو آگاہ کیا جس پر وزیراعظم نے زاہد حامد کو اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔

دریں اثنا جمعہ کو وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی ہوا جس میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے ملک میں سلامتی کی مجموعی صورت حال خاص طور پر طالبان سے مذاکرات کے بارے میں بریفنگ دی۔

طالبان نے رواں ہفتے فائربندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، اگرچہ ان حالات میں حکومت کی کمیٹی اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات سے متعلق صورت حال واضح نہیں تاہم رابطے بحال رکھنے کی کوششوں کا اعادہ کیا جا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG