رسائی کے لنکس

پاکستان کو یمن تنازع میں فریق نہیں بننا چاہیے، سیاسی و سماجی حلقے


یمن میں حالیہ ہفتوں میں لڑائی میں اضافہ ہوا ہے
یمن میں حالیہ ہفتوں میں لڑائی میں اضافہ ہوا ہے

مبصرین کا خیال ہے کہ یہ صورتحال پاکستان کے لیے بھی انتہائی مشکل ہے جس سے نکلنے کے لیے انتہائی مدبرانہ حکمت عملی سے کام لینا ہوگا۔

یمن میں حوثی باغیوں کی حکومت مخالف پرتشدد کارروائیوں اور سعودی عرب کی زیر قیادت خلیجی و عرب اتحادی ممالک کے ان باغیوں پر فضائی حملوں نے مشرق وسطیٰ سمیت اسلامی ممالک کو ایک تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے اور پاکستان سمیت مختلف ممالک صورتحال کے پرامن حل کے لیے دوڑ دھوپ میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

سعودی عرب نے شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف آپریشن میں شرکت کے لیے پاکستان سے بھی رابطہ کر رکھا ہے اور دیرینہ دوست ملک کی اس درخواست نے اسلام آباد کے لیے ایک مشکل صورتحال پیدا کر دی ہے۔

پاکستان کہہ چکا ہے کہ وہ سعودی عرب کی ریاستی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کے لیے کسی بھی خطرے سے نمٹنے میں اس کی بھرپور مدد کرے گا لیکن یمن میں اپنی فوجیں بھیجنے کا اس نے تاحال فیصلہ نہیں کیا۔

اس بارے میں مشاورت کے لیے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس پیر کو ہونے جا رہا ہے اور حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس میں یمن کے معاملے پر تمام جزیات کا بغور جائزہ لے کر اس پر سیر حاصل بحث کی جائے گی۔

وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے سرکاری ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ کوشش یہی ہے کہ اس تنازع کے حل کے لیے پاکستان اپنا بھرپور مصالحتی کردار ادا کرے۔

"ایک اور ملک پر جارحانہ انداز میں کارروائی کرنا اور خاص طور پر جب (وہاں یمن میں) قبائل کے مابین کشمکش ہو اس کے فرقہ وارانہ پہلو ضرور ہیں مگر یہ ایک پیچیدہ کشمکش ہے جو طویل عرصے سے جاری ہے اس میں زیادہ تر رائے یہی تھی کہ یمن میں فضائی کارروائی کرنا اور فوجیں بھیجنا مناسب نہیں ہو گا کیونکہ اس پر اتفاق رائے صرف پارلیمان میں ہی ہو سکتا ہے جہاں اس پر جو بھی قومی موقف اور اتفاق رائے ہے اس کو سامنے لایا جائے۔"

ملک میں سیاسی و سماجی حلقے بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پاکستان کو کسی دوسرے ملک کی لڑائی میں فریق نہیں بننا چاہیے۔

حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو اس معاملے پر اس حد تک کردار ادا کرنا چاہیے جس حد تک وہ برداشت کر سکتا ہے۔

" تو ذرا آگے چل کر سوچیے اور ذرا اوپر اٹھ کے سوچئے مگر اپنی قیمت پر نہیں، پہلے اپنی قیمت دیکھیے کہ آپ کی صلاحیت کتنی ہے کتنا برداشت کر سکتے ہیں اور کتنی آپ (پاکستان) مدد کر سکتے ہیں"۔

حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سب سے پہلےحکومت کا واضح موقف جاننا ضروری ہے۔

"سعودی عرب کے ساتھ ہمارے بڑے دیرینہ تعلقات ہیں تو ان کی اہمیت سے اور تعلقات سے کوئی انکار نہیں کرتا اب ہم نے دیکھنا یہ ہے ایک طرف تو ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں دوسری طرف ایران ہے جو ہمارا پڑوسی ہے اور اس کے ساتھ بھی ہمارے ہمیشہ سے اچھے تعلقات رہے ہیں اور ہم چاہیں گے کہ ہماری ان کے ساتھ جو سرحد ہے وہ محفوظ رہے اور پرامن رہے ان دونوں صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم حکومت کا موقف سن کر اپنا جو نظریہ ہے وہ مرتب کریں گے۔"

مبصرین کا خیال ہے کہ یہ صورتحال پاکستان کے لیے بھی انتہائی مشکل ہے جس سے نکلنے کے لیے انتہائی مدبرانہ حکمت عملی سے کام لینا ہوگا۔

سینیئر تجزیہ کار رفعت حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا۔

"مجھے یوں لگ رہا ہے کہ حکومت کی طرف سے کوشش کی جائے گی کسی نہ کسی طریقے سے افواج پاکستان کی کچھ بٹالین بھیج دی جائیں جہاں پر وہ سعودی حکومت کو یقین دلا سکیں۔ لیکن وہ سعودی عرب کے باہر جنگجو کردار ادا نہیں کریں گی۔ دیکھیے پارلیمان کا جو بھی فیصلہ ہو گا حکومت اس فیصلے کو ماننے کی پابند نہیں۔ یہ پاکستان کے قانون کا ایک حصہ ہے کہ وہ اتفاق رائے کے لیے عوامی رائے کو جاننے کے لیے عوام کے نمائندوں کی رائے جاننے کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس تو بلا سکتے ہیں لیکن پارلیمان جو بھی فیصلہ کرے گی اس کی بائنڈنگ حیثیت حکومت وقت کے لیے نہیں ہے۔"

سعودی عرب کا ماننا ہے کہ ایران شیعہ حوثی باغیوں کو مدد فراہم کر رہا ہے جب کہ تہران اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یمن کے تنازع کا پُرامن حل تلاش کیا جانا ہی سب کے مفاد میں ہے۔

XS
SM
MD
LG