رسائی کے لنکس

فلم ’آن گولڈن یئرس‘ اور ویلن ٹائینس ڈے کا قصہ


شیام کے کردار میں نامور اداکار، نور نغمی نے کمال مہارت دکھائی ہے۔ اُن کا لب و لہجہ اور کلمات کی ادائگی پُراثر و اعلیٰ ہے۔ شیام اپنی مرحومہ بیوی کو یاد کرتے کرتے، خوابوں کی دنیا بسا لیتا ہے

گذشتہ دِنوں واشنگٹن ڈی سی کے ایک مقامی سنیما ہال میں فلم ’آن گولڈن یئرس‘ کا پریمیئر شو منعقد ہوا، جسے خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔ تَرلوک ملک کی تحریر کردہ اور اُنہی کی ڈائریکشن میں بننے والی اِس فلم کے پروڈیوسر، اِجی اگانشس ہیں۔

جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے عمر رسیدہ تارکینِ وطن پر بننے والی یہ فلم، فلوریڈا کے شہر اورلینڈو کے حسین ماحول میں فلمائی گئی ہے۔

اِس کی کہانی ایک پُرسکون ماحول میں ریٹائرڈ زندگی بسر کرنے والے ادھیڑ عمر اور بزرگ افراد کے بارے میں ہے، جو ایک عجب شان سے ’اولڈ ایج ہاؤس‘ میں رہتے ہیں۔ فلم میں شامل ہے اُن کا رہن سہن، مختلف سوچ، ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور دوریاں، ناصحانہ کلمات، الجھنیں، حساس متمول انداز بیاں، بڑے ہو کر علیحدہ ہوجانی والی اولاد کے بارے میں فکرمندی، گمان، وسوسے، بے تکلف برتائو اور برجستہ رائے زنی۔۔۔ اور بہت کچھ۔

اولڈ ہاؤس کی مکینوں کی یہ ایک خاص کمیونٹی ہے، جس میں ایک نمائندہ امریکی مکین کے علاوہ زیادہ تر افراد کا تعلق جنوبی ایشیا، خصوصی طور پر بھارت سے ہے۔ اس میں بزرگوں کی زبانی کلامی تکرار، ضد بحث اور تجربات پر خوشی اور برہمی کے رویے دکھائے گئے ہیں۔

فلم کی ابتدا ہوتی ہے اولڈ ایج ہاؤس کے اصل منتظم کے چھٹی پر جانے کے اعلان سے۔ اُن کی جگہ ایک نئے منیجر آتے ہیں۔ اُن کا انداز تخاطب دھیمے لہجے والا نہیں، بلکہ سخت روی پر مبنی ہے، جس پر اُن کی تعریف کم اور نکتہ چینی زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن، فلم کے اختتام پر وہ اتنے قابل قبول بن گئے ہوتے ہیں کہ جب وہی منیجر رخصت ہوتا ہے، تو اُن کے بارے میں مکینوں کے تاثرات بدل چکے ہوتے ہیں۔ خدا حافظ کیے بغیر جانے والے منیجر کو اولڈ ہاؤس کے باسی ’ایک گرو‘ اور ’ایک مہان شخص‘ قرار دیتے ہیں۔

ہوتا یوں ہے کہ اپنے مختصر دور ملازمت میں، وہ ’مسٹر وارنر‘ بن کر، کمیونٹی کو ڈراتے دھمکاتے ہیں کہ ’عین ممکن ہے کہ آنے والا ویلن ٹائینس ڈے آپ کی زندگی کا آخری ویلن ٹائینس ڈے ہو!‘ یہ انتباہ عمر رسیدہ لوگوں کے لیے انتہائی نا خوش گوار تجربہ اور بار گراں ہوتا ہے، جو ابتدا میں، اُن کی کھل کر مذمت کرتے ہیں۔

ایک مکین اُن سے اجازت مانگتا ہے کہ کیا ویلن ٹاسئنس ڈے پر اُن کا بیٹا ماں باب سے ملنے آسکتا ہے؟ جس کا جواب نفی میں ہوتا ہے۔ جس میں بڑے میاں سیخ پا ہوجاتے ہیں، اور وہ برہمی کے آخری درجے تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن عملاً وہ کچھ کر نہیں پاتے۔

لیکن، اُن کے انتباہ کا یہ اثر ہوتا ہے کہ جو اکیلے یا پھر جوڑے کی صورت میں مکین ہوتے ہیں وہ یہ سوچنے پر دھیان مرکوز کرلیتے ہیں کہ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ بات سچ ثابت ہو! اب اس ویلن ٹائنس ڈے کو آخری سمجھنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے، آخر میں سبھی اس گمان کے قائل ہوجاتے ہیں۔ رویوں میں تبدیلی یوں آتی ہے کہ سب ایک دوسرے سے معافی طلب کرتے ہیں، ایک دوسرے کی محبت کے گُن گاتے ہیں، اور پچھتاوے اور توبہ تائب ہونے کا انداز اپناتے ہیں۔ فلم کے اختتام پر اولڈ ایج ہاؤس والے ارکان کا رہن سہن انتہائی دلفریب ہوجاتا ہے۔

ایک خاتون، اپنے میاں سے کہتی ہیں کہ اُن کی دعا ہے کہ اُن کی موت پہلے آئے اور وعدہ لیتی ہیں کہ اُن کی خاک گنگا جمنا میں بہائی جائے گی۔

شیام کے کردار میں نامور اداکار، نور نغمی نے کمال مہارت دکھائی ہے۔ اُن کا لب و لہجہ اور کلمات کی ادائگی پُراثر و اعلیٰ ہے۔ شیام اپنی مرحومہ بیوی کو یاد کرتے کرتے، خوابوں کی دنیا بسا لیتا ہے، جہاں شراب ہی اُن کا ساتھی رہ جاتا ہے۔ ایک سین میں، وہ ایک میز کے گرد بیٹھے ہوئے اپنی مرحومہ جیون ساتھی سے مخاطب ہوتے ہیں۔ یہ کمال منظر ہے۔ ادھر، سردارجی کی محبت کا انداز بھی نرالہ اور مسرور کُن ہے۔

فلم میں مناظر کی خوبصورت عکاسی کی گئی ہے۔ فلوریڈا کا موسم، بادو باراں، سمندر کا کنارا، رات و دِن کا دلکش فرق و امتزاج۔۔سبھی قابلِ دید۔

فلم کی کاسٹ میں رجنیت چودھری، جیوتی سنگھ، رویز لہمان، شیتل شا، نور نغمی، شروتی تیواری، فرخ دارووالا، اِندو گجوانی، پروفیسر اندرجیت سلوجہ، لونت کور، اگی اگنیشئس، کملیش گپتا اور سندیپ گپتا شامل ہیں۔

فلم میں جنوبی ایشیا کی دلفریب موسیقی اور گائکی کے انداز کو فلم بینوں نے خوب داد دی۔

ترلوک ملک کی پہلی فلم ’لونلی اِن امریکہ‘ تھی۔

پریمیئر شو میں کافی تعداد میں شائقین شریک تھے، جن میں بھارتی اور پاکستانی سفارت کار بھی شامل تھے۔ اسٹیج سکریٹری کے ماہرانہ فرائض ڈاکٹر ذوالفقار کاظمی نے ادا کیے۔

XS
SM
MD
LG