رسائی کے لنکس

حالات کا ستم: ’شیدی میلے‘ کا انعقاد بھی خطرے میں


گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران، سیکورٹی ادارے، کئی مرتبہ منگھوپیر علاقے میں سرچ آپریشن کرچکے ہیں۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے سبب رواں سال اس ثقافتی میلے کا انعقاد خطرے میں پڑا ہوا ہے

کراچی میں موجودہ سیکورٹی کے مسئلے نے کم از کم ایک صدی پرانے ’شیدی میلے‘ کا انعقاد بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ میلہ کراچی میں مدفن ایک بزرگ سید سخی سلطان منگھوپیر بابا سے منسوب ہے اور جس علاقے میں یہ واقعے ہے اسے ’منگھوپیر‘ ہی کہا جاتا ہے۔

حکام، پولیس اور علاقے کی انتظامیہ کا موٴقف تسلیم کریں تو ان دنوں منگھوپیر جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بناہوا ہے۔ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران، یہاں کئی مرتبہ سیکورٹی ادارے علاقے میں سرچ آپریشن کرچکے ہیں۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے سبب رواں سال اس ثقافتی میلے کا انعقاد خطرے میں پڑا ہوا ہے۔

’وی او اے‘ کے نمائندے کو علاقے کے دورے کے موقع پر جو معلومات موصول ہوئیں ان کے مطابق، درگاہ کی دیکھ بھال محکمہٴاوقاف سندھ کی ذمہ داری ہے، جس نے سیکورٹی کی غرض سے مین گیٹ ہر قسم کی آمد و رفت کے لئے بند کیا ہوا ہے۔ البتہ، ایک جانب واقع بازار کے اندر سے ایک اور چھوٹا سا راستہ اندر جاتا ہے۔

لیکن، یہاں بھی سیکورٹی کے سخت پہرے عبور کرنا لازمی ہیں۔
سید سخی سلطان منگھوپیر بابا کا عروس اسلامی مہینے ذوالحج میں ہوتا ہے۔ لیکن، شیدی میلے کا اس سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ یہ شیدی قوم کے بزرگوں کی جانب سے تاریخ مقرر ہونے پر منایا جاتا ہے۔ لیکن، اس بار اس میلے کے انعقاد کو حالات بہتر ہونے سے منسلک کیا جا رہا ہے۔

لیاری کے ایک دیرینہ رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’وی او اے‘ کو بتایا کہ حالات چونکہ غیر یقینی ہیں، اس لئے درگاہ پر اس بار میلہ منعقد نہ ہوسکے البتہ شیدی قوم کے لوگ لیاری کے علاقے بغدادی میں اپنے طور پر اور محدود انداز میں اس میلے کے انعقاد کا ادارہ رکھتے ہیں۔

شیدی میلہ: دلچسپ وجہ شہرت

میلہ منگھوپیر بابا کو احترام کی غرض سے رسم کے طور پر منایا جاتا ہے، جو چھ دنوں تک جاری رہتا ہے۔ میلہ ’شیدی ولیج ‘میں ہوتا ہے جو بابا کے مزار کے قریب ہی واقع ہے۔ مزار کراچی کے شمال میں 20 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔

میلے میں صرف کراچی میں رہنے والی شیدی قبیلے کے لوگ ہی شرکت نہیں کرتے، بلکہ بلوچستان اور اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اس میں بڑے پیمانے پر شرکت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

لاسی قبائل سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ شیدی میلہ منانے کی رسم ایک صدی پرانی ہے۔

میلے کی سب سے خاص بات وہ رقص اور ایک خاص قسم کا افریقی طرز کا ڈھول ہے جسے ’مگرمین‘ کہاجاتا ہے۔ شیدی عقیدت مند ملکر مگرمین کی تھاپ پر رقص کرتے ہیں۔
روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق بیشتر لوگوں کے نزدیک اس رسم کو ’مایزمان‘ کہاجاتا ہے۔ یہ افریقی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ڈرم بجانا کے ہیں۔ دراصل شیدی افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ صدیوں پہلے افریقہ سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے۔ لہذا، ان کا رہن سہن اور بود و باش آج بھی افریقی طرز سے ملتا ہے۔

ڈرم بجاتے وقت مختلف قبائلی زبانوں کے گانے بھی گائے جاتے ہیں مثلاً سواہیلی یعنی مشرقی افریقی زبان، سندھی اور بلوچی۔ اس موقع پر جانور کی بھی قربانی کی جاتی ہے اور اس کا خون آستانے اور ڈھول پر چھڑکا جاتا ہے۔

اسی دوران، کچھ خواتین اور مرد جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں رنگ برنگی ڈنڈیاں اٹھائی ہوتی ہیں وہ جلوس کی شکل میں چلتے ہوئے رقص کرتے رہتے ہیں۔ اسے دھمال ڈالنا کہتے ہیں۔

اس روز شیدی افراد اپنے اپنے دیہات سے پیدل چل کر اسی طرح رقص کرتے اور ڈھول بجاتے ہوئے مزار پر آتے ہیں۔ یہ دیہات مزار سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہیں۔ ان میں مرد، عورت بچے اور بوڑھے سب شامل ہوتے ہیں۔ جلوس کا کوئی فرد اس روز چپل نہیں پہنتا۔ جلوس مختلف افریقی طرز کی دھنوں پر دھمال ڈالتے، ناچتے گاتے مزار تک کا سفر طے کرتے ہیں۔

جلوس کے شرکا مختلف رنگوں کے کپڑے زیب تن کرتے ہیں۔ لال، نیلے، پیلے، نارنجی، فیروزی، ہرے، کالے اور ایسے ہی بے شمار چمکدار رنگوں سے سجے یہ کپڑے اس تقریب کو گویا چار چاند لگادیتے ہیں۔

مگرمچھوں کا میلہ

مزار کے احاطے میں ایک تالاب میں سالوں سے پلنے والے مگرمچھ منگھوپیر کے مزار اور اس میلے کی سب سے خاص بات تصور ہوتے ہیں۔اسی مناسبت سے اسے مگرمچھوں کا میلہ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن، یہ اصلاح مقامی طور پر استعمال نہیں ہوتی۔

کراچی کے ایک بڑے اشاعتی ادارے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی عہدیدار رومانہ حسین کے مطابق مزار کے احاطے میں موجود مگرمچھوں کے بارے میں بہت سی روایات گردش کرتی ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ مگرمچھ پیر منگھو کو بابا فرید نے بطور تحفہ دئیے تھے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ یہ مگرمچھ حضرت لال شہباز قلندر کی جوئیں ہیں جن کی وجہ سے خشک اور بنجر زمین پر چشمہ پھوٹ نکلا۔

تیسری روایت کے مطابق، مگرمچھ کورنگی کے ایک غارسے ایک اور صوفی مور مبارک لے کر آئے تھے۔ جبکہ، بعض روایات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مگرمچھ ایک بہت بڑے سیلاب میں بہتے ہوئے اس علاقے میں آنکلے۔


وجہ جو بھی ہو، مگرمچھ مزار پر آنے والوں کے لئے خاص دلچسپی کا مرکز ہیں۔

مزار پرآنے والے جانور قربان کر کے ان کا گوشت ان مگرمچھوں کو اس امید پر کھلاتے ہیں کہ اس کے بدلے میں ان کے من کی مرادیں پوری ہوں گی۔

مزار کے قریب، گرم اور ٹھنڈے پانی کے چشمے بھی بہتے ہیں، جن میں روایت کے مطابق ڈبکی لگانے سے جلد کی بیماریوں سے شفا ملتی ہے۔

میلے کی تقریبات کے دوران ہی منگھوپیر بابا کے مزار پر چادر چڑھائی جاتی ہے اور وہ بھی ایک خاص انداز میں۔ اس موقع پر بھی جلوس نکالا جاتا ہے۔ زائرین کے مطابق، ظہر کی اذان سے پہلے پہلے چادر چڑھانا ضروری ہے۔
XS
SM
MD
LG