رسائی کے لنکس

سندھ، ہزاروں اساتذہ ’بغیر کام کیے‘ تنخواہ کے حقدار؟


ایک غیر سرکاری تنطیم کے اعداد و شمار کے مطابق صوبہِ سندھ میں ایسے اساتذہ کی تعداد 40 ہزار کے کے لگ بھگ ہے جو نوکری کے نام پر تنخواہیں تو باقاعدگی سے وصول کرتے ہیں مگر سکول جا کر پڑھانے کی ذمہ داری نہیں ادا کرتے۔

پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ہمیشہ سے ہی حکام ِبالا کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے۔ جہاں ایک جانب تعلیم سے محروم پاکستان کے لاکھوں بچے اسکول نہیں جاتے وہیں بے شمار ایسے 'اساتذہ' بھی ہیں جو اسکول جا کر پڑھاتے نہیں مگر باقاعدگی سے ماہانہ تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔

یہی اساتذہ تعلیم جیسے مسئلے کو مزید مشکلات سے دوچار کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ ِسندھ میں گھوسٹ اسکولز اور ایسے اساتذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے جو صرف کاغذ پر موجود ہیں اور جن کا اصل میں کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ سکولز اور اساتذہ صوبے کے وسائل پر بوجھ ہیں۔

سوشل میڈیا کی جانب سے اٹھنے والی آواز کے بعد سول سوسائٹی نے ایسے ٹیچرز کے خلاف جو گھر بیٹھے تنخواہ وصول کر رہے ہیں، کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں مہم کا آغاز کیا ہے۔

سول سوسائٹی کے ممبران اس مہم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ، ’یہ معاملہ نیا نہیں بلکہ سالہاسال پرانا ہے، یہ سندھ کے وڈیرہ شاہی کا منفی روپ ہے جہاں با اثر افراد تعلیمی اداروں میں بھرتی ہوکر فرائض کی انجام دہی کی جائے صرف تنخواہیں لیتے آرہے ہیں، جس پر حکومت سندھ کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے‘۔

سندھ میں ایسے اساتذہ جو صرف تنخواہ حاصل کر رہے ہیں اور جو سکول جا کر پڑھاتے نہیں، اس مہم میں مختلف نجی اداروں کے افراد اور صحافی شامل ہیں۔

کراچی کے ایک مقامی صجافی اس حوالے سے وی او اے سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ، ’سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں ایسے ہزاروں اساتذہ کی تنخواہیں ایک ارب چالیس کروڑ روپے کے لگ بھگ بنتی ہیں‘۔

ماہرین کہتے ہیں کہ سندھ میں ایسے گھوسٹ سکولز اور ایسے اساتذہ جو اپنے فرائض کی ادائیگی کے بغیر تنخواہ وصول کر رہے ہیں کی وجہ سے سندھ کے تعلیمی ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ ماہرین کے نزدیک افسوس کی بات یہ ہے کہ سندھ کے تعلیمی نظام میں رشوت کا چلن بہت عام ہے۔ لوگ رشوت دے کر ٹیچنگ کی نوکری حاصل کر لیتے ہیں جبکہ بعد میں ان سے پوچھ گچھ کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں حکومتی کارروائی ہونا بہت ضروری ہے۔

ایک غیر سرکاری ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے سندھ بھر میں ایسے اساتذہ کی تعداد 40 ہزار کے کے لگ بھگ ہے جو تعلیمی فرائض انجام دینے کے بجائے اساتذہ کی نوکری کے نام پر تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG