رسائی کے لنکس

ترکی: حکومت مخالف اخباری صنعت کے خلاف کارروائی


ترک پولیس اب تک اِن چھاپوں کے بارے میں خاموش ہے۔ تاہم، دو ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کے گروپ کے نیوز ایڈیٹر، اریکان اکوس نے بتایا ہے کہ کمپنی کے صدر دفتر اور انقرہ کے ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کے اسٹوڈیوز کے علاوہ ادارے کے سربراہ کے گھر کی تلاشی لی گئی ہے

انسانی حقوق کے گروہوں کے مطابق، ترک پولیس نے منگل کے روز اہم میڈیا اداروں کی ملکیت میں چلنے والے کاروبار کے خلاف چھاپوں کا ایک سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، جب کہ لگتا یوں ہے کہ یہ کارروائی اُن اخبارات اور براڈکاسٹرز کے خلاف ہو رہی ہے جو صدر رجب طیب اردگان اور اُن کی اسلام نواز، ’انصاف اور ترقی پارٹی‘ کے ناقد ہیں۔
’کوزا پیک گروپ‘ جو معدنیات کی تلاش کی تنصیبات کے علاوہ میڈیا کے اداروں کا مالک ہے، اُس کے خلاف چھاپے شروع کرنے سے قبل ایک قابل اعتماد فرد نے ٹوئٹر پر متنبہ کیا تھا کہ صدر اردگان اخباروں پر چھاپوں کا ارادہ رکھتے ہیں، جب کہ نومبر میں قبل از وقت انتخابات ہونے والے ہیں۔

انتباہ جاری کنندہ کا یہ انکشاف ایسے میں سامنے آیا ہے جب نئے ضابطوں پر عمل درآمد کا آغاز کیا گیا ہے، جس میں ’پریس کارڈ‘ اور ’میڈیا ایکرڈیٹیشن‘ جاری کرنے کے حوالے سے حکومت کو زیادہ اختیارات دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

سرکاری تحویل میں کام کرنے والے خبر رساں ادارے، ’انادولو‘ نے ’کوزاپیک گروپ‘ کی ملکیت میں کام کرنے والے 23 میڈیا کے کاروبار کی تلاشی لی، اس شبہ پر کہ وہ نامور عالم دین، فتح اللہ گولین کو مالی امداد فراہم کرتے ہیں، جو اِن دِنوں امریکہ میں ملک بدر ہیں۔

گولین کسی وقت ترک صدر کے اتحادی ہوا کرتے تھے، لیکن اب وہ اُن کے سخت ترین ناقدوں میں سے ایک ہیں۔

ترک پولیس نے اب تک اِن چھاپوں کے بارے میں بیان بازی سے احتراز کیا ہے، لیکن، دو ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کے گروپ کے نیوز ایڈیٹر، اریکان اکوس نے بتایا ہے کہ کمپنی کے صدر دفتر اور انقرہ کے ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کے خاص اسٹوڈیوز کے علاوہ ادارے کے سربراہ کے گھر کی تلاشی لی گئی ہے۔

ایک بیان میں اکوس نے کہا ہے کہ ’اس کارروائی کا مقصد انتخابات سے قبل اپوزیشن میڈیا کو خاموش کرنا ہے‘۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’یہ کہنا غلط ہوگا کہ یہ کارروائی محض ایک گروپ کے خلاف کی جا رہی ہے۔ ہمارے خلاف کارروائی کرکے وہ دراصل اٹھنے والے شور و غوغا کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں، جس کے بعد یہ سلسلہ دیگر میڈیا گروپوں تک پھیل سکتا ہے‘۔

ترکی میں اس وقت کئی ایک صحافیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاری ہے جب کہ اُن کے خلاف لگائے گئے الزامات میں اعلیٰ اہل کاروں کی بے حرمتی کا الزام شامل ہے۔ زیادہ تر مقدمات دسمبر میں دائر کیے گئے، جب درجنوں صحافیوں اور میڈیا منتظمین کو حراست میں لیا گیا۔

جاری قانونی چارہ جوئی کے عمل کی بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروہوں نے مذمت کی ہے۔ یورپی پارلیمان نے دسمبر میں صحافیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر ترک حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، جن میں سے چند کے خلاف دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG