رسائی کے لنکس

زلزلہ زدہ نیپال میں بچے سمگلنگ کے خطرے سے دوچار: اقوامِ متحدہ


یونیسف نے کہا ہے کہ 25 اپریل سے اب تک 245 بچوں کو سمگلروں سے یا غیر ضروری طور پر یتیم خانوں میں بھیجے جانے سے بچایا گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال نے جمعے کو کہا ہے کہ نیپال میں اپریل میں زلزلہ آنے کے بعد اس ملک کے بچے سمگلنگ، استحصال اور غیر ضروری یا غیر قانونی طور پر یتیم خانوں میں بھیجے جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

25 اپریل اور 12 مئی کو آنے والے زلزلوں میں لاکھوں خاندانوں کے گھر تباہ ہو گئے تھے اور 8,800 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے، جس سے انسانی حقوق کی تنظیموں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ علاقے کے سمگلنگ گروہ ملک میں پھیلے انتشار سے فائدہ اٹھائیں گے۔

یونیسف نے کہا کہ ہر سال ہزاروں نیپالی بچے جسم فروشی یا مزدوری کے لیے بھارت سمگل کر دیے جاتے ہیں اور زلزلے کے بعد خطرے سے دوچار بچوں اور خاندانوں کو سمگلروں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے بعد صورتحال میں ابتری آ سکتی ہے۔

یونیسف کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں خاندانوں کو اپنے بچے یتیم خانوں میں جمع کروانے کے لیے زیادہ آسانی سے قائل کیا جا سکتا ہے، جہاں گود لینے کے عمل کی نگرانی کمزور ہے اور جہاں وہ استحصال کے خطرے سے دوچار ہوں گے۔

یونیسف کے مطابق پہلا زلزلہ آنے سے پہلے نیپال میں 15,000 کے قریب بچے یتیم خانوں میں رہتے تھے، اور ان میں دس میں سے آٹھ کے ماں یا باپ زندہ تھے۔

یونیسف نے کہا ہے کہ وہ نیپال بھر میں 84 چوکیوں اور پولیس اسٹیشنوں پر پولیس اور مقامی تنظیموں کے ساتھ مل کر سمگلنگ کا شکار بچوں کے لیے مراکز قائم کرنے اور بھارت اور چین کی سرحدوں پر بچوں کی سمگلنگ روکنے کے لیے چوکیاں قائم کرنے کے لیے کام رہی ہے۔

گزشتہ ماہ نیپال نے انسانی سمگلروں کو ناکام بنانے کے لیے 16 سال سے کم عمر کے بچوں پر والدین یا منظور شدہ سرپرستوں کے بغیر سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی اور زندہ والدین کے بچوں کو گود لینے سے روکنے کے لیے غیر ملکیوں پر نیپال میں بچے گود لینے پر عارضی پابندی عائد کر دی تھی۔

یونیسف نے کہا ہے کہ 25 اپریل سے اب تک 245 بچوں کو سمگلروں سے یا غیر ضروری طور پر یتیم خانوں میں بھیجے جانے سے بچایا گیا ہے۔

عورتوں، بچوں اور سماجی بہبود کی وزارت کی عہدیدار رادھیکا آریال کے مطابق بچائے گئے بچے اجنبی لوگوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے جن کے پاس حکام کی جانب سے کوئی اجازت نامہ موجود نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’’جہاں تک ممکن ہو سکا، ان تمام بچوں کو واپس ان کے والدین یا خاندان والوں کے پاس بھیجا جائے گا۔‘‘

XS
SM
MD
LG