رسائی کے لنکس

شبنم شکیل، اردو شاعری کا ایک اور ستارہ غروب ہوگیا


ُن کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ شاعری کے علاوہ، خواتین کے لیے بہت سے کام کیے اور نسوانی شاعری کے بارے میں انٹرویو پر مشتمل ایک کتاب مرتب کری۔ خاکے اور افسانے بھی لکھے۔ مگر بنیادی طور پر اُنھوں نے غزل گوئی کو اولیت دی

ممتاز شاعرہ، شبنم شکیل ہفتے کے روز انتقال کرگئیں۔

لوٹ کر اب نہ آسکیں شائید
یہ مسافت عجب ہے مل جاؤ
کون اب اور انتظار کرے
اتنی مہلت ہی کب ہے، مل جاؤ

منفرد لہجے کی یہ شاعرہ 1960ء کی دہائی سے شعرو سخن سے باقاعدہ وابستہ ہوئیں۔
ادبی ماحول میں آنکھ کھولی۔ والد مرحوم سید عابد علی عابد لاہور کے ادبی اور تعلیمی حلقوں میں ایک مقتدر شخصیت تھے۔ عابد صاحب بیسویں صدی کے چوتھے، پانچویں اور
چھٹے عشرے میں اپنے طرز کے منفرد شاعر تھے۔ اُن کا یہ شعر تو زبانِ زدِعام ہوا، کہ:


وقت ِرخصت وہ چپ رہے عابد
آنکھ سے پھیلتا گیا کاجل

کوئی سال سوا سال پہلےمرحومہ شبنم شکیل کا ’وائس آف امریکہ‘ کے ادبی مجلے، ’صدا رنگ ‘میں ایک تفصیلی انٹرویو نشر کیا گیا تھا۔ اِس انٹرویو میں اُنھوں نے اپنے ادبی سفر کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا تھا۔

اِسی انٹرویو میں اُنھوں نے بتایا تھا کہ اُن کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ شاعری کے علاوہ خواتین کے لیے بہت سے کام کیے اور نسوانی شاعری کے بارے میں انٹرویو پر مشتمل ایک کتاب مرتب کرلی۔ خاکے اور افسانے بھی لکھے۔

مگر بنیادی طور پرغزل گوئی کو اولیت دی۔

اُنھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ کسی خاص تحریک سے وابستہ نہیں رہیں۔
ترقی پسند تحریک نے متاثر ضرور کیا مگر اِن کی شاعری میں نسوانی رنگ غالب رہا۔

مرحومہ شبنم شکیل کے اِس تفصیلی انٹرویو کا یہ حصہ سنیئے جس میں اُنھوں نے اپنی اُس شاعری کا ذکر کیا، جو بقول اُن کے، اُن کا امتیاز تھا۔

اُن کا یہ تفصیلی انٹرویو اور اُن کا منتخب کلام ہمارے ادبی مجلے، ’صدا رنگ‘ کے اگلے شمارے یعنی 10مارچ، اتوار کو رات دس بجے سماعت فرمائیے گا۔

آڈیو سننے کے لیے کلک کیجئیے:
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:20 0:00
XS
SM
MD
LG