رسائی کے لنکس

آب آب کر مر گئے، سرہانے دھرا رہا پانی


انسانی جسم کھربوں خلیوں سے بنا ہے۔ ان خلیوں میں، ان خلیوں کے گرد اور خون میں پانی موجود ہوتا ہے۔ اور ہزاروں مختلف قسم کے کیمیائی اجزاٴ اور غذائیت اس پانی میں تحلیل ہو کر جسم کے ہر حصے تک پہنچتے ہیں اور پورے بدن میں بننے والا فضلہ پانی ہی کی مدد سے جسم سے خارج ہوتا ہے

اگر کوئی نامانوس زبان میں گفتگو کرنے کے باعث نقصان اٹھائے تو کہتے ہیں کہ ’آب آب کر مرگئے، سرہانے دھرا رہا پانی‘۔ لیکن، اگر کوئی پانی نہ ہونے کی وجہ سے تڑپ رہا ہو تو پھر کسی زبان میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں؛ بس، پیاسے کو پانی دیا جائے۔

’دی کنسائز ہیومن باڈی‘ نامی کتاب کے مطابق، انسانی جسم کا تقریباًًٍٍٍ دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ انسانی جسم کھربوں خلیوں سے بنا ہے اور یہ پانی ان خلیوں میں، ان خلیوں کے گرد اور خون میں موجود ہوتا ہے اور ہزاروں مختلف قسم کے کیمیائی اجزاٴ اور غذائیت اس پانی میں تحلیل ہو کر جسم کے ہر حصے تک پہنچتے ہیں۔ اور، پورے بدن میں بننے والا فضلہ اسی پانی کی مدد سے جسم سے خارج ہوتا ہے۔

نہ صرف انسانی جسم، بلکہ اس کرہٴ زمین کا تقریباًًٍٍٍ دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ اور یہ پانی انسانوں سمیت حیوانات اور نباتات کے لئے بھی لازمی ہے۔ اور، اگر کسی بھی وجہ سے زمین کے کسی حصے میں پانی کی کمی ہو جائے، تو بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں، جو امراض اور اموات کا سبب بنتی ہیں۔

’لائیو سائنس‘ نامی ویب سائٹ کے مطابق، خشک سالی کی وجہ سے لوگ صفائی کے لئے پانی کا استعمال کم کر دیتے ہیں اور یوں ہاتھ نہ دھونے کی وجہ سے جراثیم سے پھیلنے والی بیماریاں بڑھ سکتی ہیں، جیسے کہ نمونیا اور اسہال۔ پانی کم ہونے کی وجہ سے علاقے میں قحط پڑ سکتا ہے اور غذا کی مقدار اور معیار گر جاتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں غذائی اور مالی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں، جن سے مختلف جسمانی اور نفسیاتی امراض جنم لیتے ہیں۔ اور یوں، پانی اور غذا کی قلت آپس میں لڑائی اور اس علاقے سے لوگوں کی نقل مکانی کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔

پاکستان کے صوبہٴسندھ کا علاقہ تھرپارکر ہمیشہ خشک سالی اور قحط کی وجہ سے خبروں میں رہتا ہے۔۔۔

آئے دِن، مقامی نیوز چینلوں اور اخبارات میں تھر میں بچوں کی اموات کی خبریں موجود ہوتی ہیں۔ اور ان خبروں پہ مختلف سیاسی جماعتوں کے سیاسی بیانات بھی۔ کوئی کہتا ہے کہ تھر میں بچے بھوک سے ہلاک ہو رہے ہیں تو کوئی کہتا ہے غربت سے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں بچوں کے شعبے کے سربراہ رہنے والے پروفیسر ڈاکٹر غفار بلو ’ہینڈز‘ نامی فلاحی ادارے کے بانی اور سربراہ ہیں۔

انھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں تحقیق کی روشنی میں یہ بات مصدقہ حقیقت کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ وہ بچے جن میں غذائی قلت ہوتی ہے، وہ مختلف بیماریوں کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور ہلاک ہو جاتے ہیں۔

تھر میں اب بھی کہیں کوئی بچہ مر رہا ہے چاہے اس کی وجہ غذائی کمی ہو، پیاس ہو، بیماری ہو یا غربت۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ اول تو تھر کے لوگوں کی ویسے مدد نہیں کی جا رہی جیسے کی جانی چاہئیے اور اگر امداد کی بھی جارہی ہے تو، کہا یہ جارہا ہے کہ، وہ مستحق لوگوں تک نہیں پہنچ پا رہی ہے، یا پھر بدعنوانی کی نذر ہو رہی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ، پچھلے دنوں تھر کے قحط زدگان کے لئے بھیجی گئی پانی کی بوتلوں کی بہت بڑی تعداد گوداموں میں خراب ہوگئی تھی۔

بات یہ ہے کہ پانی کا لفظ کسی غیر مانوس زبان میں نہیں کہا جا رہا ہے، بلکہ مقامی میڈیا کے مطابق، پانی کی قلت فوت ہونے والے بچوں کے چہروں پر نمایاں تھی۔

XS
SM
MD
LG