رسائی کے لنکس

مزدور طبقہ بدستور عدم اطمینان کا شکار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حکومت نے محنت کشوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کم سے کم اجرت میں اضافے کے علاوہ مختلف فلاحی اقدام بھی کیے ہیں لیکن مزدور یونینز اور محنت کشوں کی اکثریت اسے ناکافی سمجھتی ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اتوار کو مزدورں کا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد محنت کشوں کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔

ملک کے مختلف شہروں میں ریلیوں اور تقریبات کا انعقاد کیا گیا جس میں 1886 میں امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں کے حقوق کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم نے یوم مزدور کی مناسبت سے اپنے الگ الگ پیغامات میں کہا کہ حکومت مزدوروں کے وقار اور ان کے لیے کام کاج کے ماحول کو بہتر بنانے کے کوشاں ہے۔

حکومت نے محنت کشوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کم سے کم اجرت میں اضافے کے علاوہ مختلف فلاحی اقدام بھی کیے ہیں لیکن مزدور یونینز اور محنت کشوں کی اکثریت اسے ناکافی سمجھتی ہے۔

پاکستان میں کروڑوں کی تعداد میں مزدور مختلف شعبو ں میں کام کررہے ہیں جن میں ایک قابل ذکر تعداد اینٹوں کے بھٹوں پر مشقت کر کے اپنی روزی کما رہی ہے۔

بھٹہ مزدورں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن سیدہ غلام فاطمہ کا کہنا ہے کہ ان مزدوروں کو حکومت کی طرف سے مقرر کی گئی اجرات ادا نہیں کی جاتی بلکہ بہت سے مزدور اپنے خاندان کے ساتھ جبری مشقت پر مجبور ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں غلام فاطمہ کا کہنا تھا کہ " سماجی تحفظ کے تمام اقدامات کیے جائیں، بھٹہ مزدوروں کے لیے سوشل سکیورٹی کارڈز جاری کیے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ کھیت مزدورں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سندھ کے اندر ہاریوں کی کیا حالت ہے۔ پنجاب کے جاگیرداروں کے ڈیروں پر مزدورں کی کیا حالت ہے ۔۔یہ دیکھنے کی ضرورت ہے ۔۔یہ ایک لمحہ فکریہ ہے"۔

آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے صدر سلطان محمود خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خاص طور پر حالیہ برسوں میں توانائی کے بحران سے مزدور بے انتہا متاثر ہوئے اور ایک بڑی تعداد کو اپنے روزگار سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ اجرت میں اضافے کے ساتھ ساتھ حکومت روزگار کی ضمانت کو بھی یقینی بنانے کے لیے اقدام کرے۔

" (سابق صدر) ایوب کے دور کے بعد ساڑھے چار لاکھ صنعتیں بند ہو چکی ہیں، بجائے بننے کی بند ہو رہی ہیں۔ ہمارے صنعت کار اپنے اسٹیکر چین کے جوتوں پر لگا کر مارکیٹ میں فروخت کر رہے ہیں۔۔۔ تو پھر بے روزگاری نہیں ہو گی تو کیا ہو گا"۔

پاکستان میں غیر سرکاری اندازوں کے مطابق ایک کروڑ سے زائد بچے محنت مزدوری کرتے ہیں اور گزشتہ سال اس ملک کو بچوں سے مشقت لینے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک قرار دیا گیا تھا۔

تاہم حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ بچوں سے مشقت کے خاتمے پر بھی توجہ دے رہی ہے جن میں مزدوری کرنے والے بچوں کو تعلیم کی راغب کرنا بھی شامل ہے۔

اتوار کو ہی آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا کہ بھٹوں پر کام کرنے والے بچے اگر کام چھوڑ کر اسکولوں میں داخل ہوں گے تو ایسے ہر بچے کو ایک ہزار روپیہ ماہوار دیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG