رسائی کے لنکس

نوجوانوں میں نیند میں 'غیر حققی' آوازیں سننا عام ہے: تحقیق


واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس کے نتیجے سے پتہ چلا ہے کہ تقریباً ہر پانچ میں سے ایک نوجوان یا 18 فیصد نے کم از کم ایک بار اس حالت کا تجربہ کیا تھا۔

رات کی پہلی نیند میں اچانک زوردار آواز سن کر ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھنے کے تجربے کو عام طور پر ہم اپنے خواب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور صبح تک اکثر اسے بھول بھی جاتے ہیں، لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ نیند میں سنائی دینے والی آوازیں ہمارے خواب کا نتیجہ ہوں، بلکہ مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ یہ حقیقی حالت ہے اور اس نفسیاتی رجحان کی وجہ سے نیند سے جاگنے والوں کی تعداد میں غیر متوقع اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ 'ایکس پلوڈنگ ہیڈ سنڈروم' یا نیند کے دوران سر میں دھماکے جیسی آواز سنائی دینے کے تجربے کو معالجین عام طور پر درمیانی عمر کے لوگوں کا نادر مرض تصور کرتے ہیں۔ لیکن نئی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ پہلے کے اندازوں کے مقابلے میں نیند کی یہ بیماری زیادہ عام ہو گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 20 فیصد نوجوانوں نے کم از کم ایک بار نیند میں انتہائی گونج دار دھماکا سننے کا تجربہ کیا ہے۔

ماہرین نفسیات نے ای ایچ ایس کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نیند میں یہ حالت کبھی کبھار اس وقت ہوتی ہے جب آپ کی نیند کا دورانیہ ایک یا دو گھنٹوں کا ہوتا ہے، کہ اچانک دماغ میں مختلف اقسام کی آوازیں مثلا بندوق کی فائرنگ، آتش بازی کے دھماکوں یا دروازہ زور سے بند کرنے کی آواز سنائی دیتی ہیں، ایسی آوازوں کا دورانیہ چند سیکنڈ کا ہوتا ہے جس سے ایک شخص گھبراہٹ کا شکار ہو کر نیند سے بیدار ہو جاتا ہے اور بعد میں اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ شور و غوغا کی آوازیں دراصل ماحول کا حصہ نہیں تھیں بلکہ غیر حقیقی تھیں۔

نیند کے رسالے 'جرنل آف سلیپ ریسرچ' کی تحقیق 211 انڈر گریجوایٹ نوجوانوں کے انٹرویو پر مشتمل تھی جس میں ان سے علامات کے بارے میں سوالات پوچھے گئے۔

واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس کے نتیجے سے پتہ چلا ہے کہ تقریباً ہر پانچ میں سے ایک نوجوان یا 18 فیصد نے کم از کم ایک بار اس حالت کا تجربہ کیا تھا۔

مطالعے کے مصنف ماہر نفسیات برائن شارپ لیس کے نظریہ کے مطابق یہ غیر معمولی حالت نیند کے دوران دماغ میں سوئے ہوئے جسمانی افعال کو بند کرنے میں مسائل پیدا ہو جانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ مسئلہ سوتے ہوئے اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دماغ سو جاتا ہے اور بالکل کمپیوٹر کی طرح دماغ کے مخصوص خلیات موٹر نیوران (حرکات و سکنات) ویژول نیوران (بصری خلیات) اور آڈیو ٹری نیوران (سمعی خلیات) کو مرحلہ وار بند کرتا ہے۔

لیکن نیند میں دھماکے جیسی آوازیں سننے والے لوگوں میں مناسب طریقے سے دماغ کے افعال بند نا ہونے کی وجہ سے، دماغ میں آواز کے ذمہ دار خلیات اچانک توانائی کا دھماکا پیدا کرتے ہیں اور دماغ سمعی نیورانز کے اس پیغام کو ماحول سے منسلک شور سے ترجمانی کر لیتا ہے۔

ہمارا دماغ اپنی تمام تر سرگرمیاں مخصوص خلیوں (نیوران) کےذریعے انجام دیتا ہے ایک اندازے کے مطابق انسانی دماغ میں کھربوں عصبی نیورانز ہیں جبکہ ہمارے دماغ کو ملنے والے تمام پیغامات کا تقریبا 23 فیصد حصہ کانوں کے ذریعہ دماغ تک پہنچتا ہے۔

ڈاکٹر شارپ لیس نے کہا ہمارے تجربہ میں نوجوانوں کی ایک تہائی تعداد جن میں یہ علامت موجود تھی، بتایا کہ انھوں نے کچی نیند کے دوران انتہائی خوفناک بلند آواز کے ساتھ ساتھ جسم پر فالج گرنے کا تجربہ بھی کیا۔

محققین نے کہا کہ عام طور پر اس حالت کے ساتھ لوگ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں جس میں ایک شخص بیدار ہونے کے باوجود کچھ بولنے اور حرکت کرنے کے قابل نہیں ہوتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ سر میں دھماکا محسوس کرنا بظاہر ایک مضحکہ خیز بات لگتی ہے لیکن یہ اصل میں انتہائی خوفزدہ کر دینے والا تجربہ ہے، جو نا صرف نیند سے بیدار کر دیتا ہے بلکہ بعض نفسیاتی مسائل بھی پیدا کر سکتا ہے اس کے علاوہ اس علامت کے ساتھ دل معمول کی رفتار سے زیادہ دھڑکنے کی وجہ سے دل کے دورے کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر شارپ لیس کے مطابق یہ بے ضرر علامت ہے اور 3 فیصد سے بھی کم نوجوانوں میں طبی طور پر اس کے شدید اثرات ظاہر ہوئے اگرچہ یہ تکلیف دہ حالت نہیں ہے بلکہ ایسا ہے جیسے ایک شخص کی کھوپڑی کے اندر آدھی رات میں سوتے ہوئے فائر کریکر نصب کر دئیے جائیں۔

غیر معمولی سینڈروم کی وجوہات اب تک نامعلوم ہیں۔ معالجین ایسی حالت کو انتہائی تھکاوٹ کی علامت تصور کرتے ہیں۔

نیند کے مسائل کے حوالے سے ہونے والی مطالعے میں سر میں دھماکوں کی آواز سنائی دینے کے تجربے کی وضاحت پہلی بار ویلش معالج اور ماہر نفسیات رابرٹ آرمسٹرنگ جونز کی طرف سے 1920ء میں پیش کی گئی تھی۔

دریں اثناء اس نایاب بیماری کی تفصیلات 1989ء میں برطانوی ماہر اعصابیات جان ایم ایس پیرس نے بیان کی جنھوں نے کہا کہ یہ 50 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کا مرض ہے جس کا تجربہ لوگ زندگی میں کم از کم ایک بار کرتے ہیں بالخصوص خواتین میں یہ نادر بیماری مردوں کے مقابلے میں زیادہ عام ہے۔

XS
SM
MD
LG