رسائی کے لنکس

بغیر کئے کی سزا


سعودی عرب میں قیدپاکستانی شہری کی اہلیہ رہائی کےلئے کوشاں۔ میں شوہر کی رہائی کیلئے ماری ماری پھرتی رہی مگر شنوائی نہیں ہوئی

سعودی عرب کے مقد س شہر مکہ میں ایک پاکستانی شہری بغیر کسی جرم کےمحض غلط فہمی کی بنیاد پر غیر اعلانیہ سزا کاٹ رہا ہے۔

یہ 25سالہ محمد رمیزراجہ ہے جو رمضان کے ابتدائی ایام میں اپنی اہلیہ کوسین رمیز اور تین سالہ بیٹی کے ساتھ عمرے کی ادائیگی کی غرض سے براستہ جدہ ، مکہ مکرمہ پہنچا تھا مگر یہیں وہ واقعہ پیش آگیا جس نے نہ صرف خود اس کی زندگی میں ایک بحران کھڑا کردیا ہے بلکہ تمام اہل خانہ بھی اندیکھے خدشات اور لرزہ خیز خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں۔

بدھ کے روز سعودی عرب سےکراچی پہنچنے والی کوسین رمیز نے وائس آف امریکہ کی نمائندہ کو واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ 21جولائی بروز جمعہ کوجس دن سعودی عرب میں پہلا روزہ تھا وہ اور اس کا شو ہر رمیز عمرے کی ادائیگی کی غرض سے نماز فجر کے وقت مسجدعائشہ میں موجود تھا کہ اسی دوران رمیز کو ایک پرس زمین پر پڑا نظرآیا ۔

رمیز نے یہ پرس اٹھا کر وہاں موجود سیکورٹی اہلکار کویہ کہتے ہوئے دینا چاہا کہ اسے یہ پرس فلاں جگہ سے ملا ہے مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنا مافی الضمیر بیان کرپاتا اسے چوری کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا۔رمیز کو عربی نہیں آتی جبکہ پولیس اہلکار انگریزی یا اردو سے نابلد تھا۔


کوسین کے مطابق تمام صورتحال دیکھ کر وہ سکتے میں آگئی۔ پہلے تو اسے کچھ سمجھ ہی نہ آیا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے ۔پھر اس نے لوگوں کےسمجھانے پر بھاگ دوڑ شروع کی۔ کوسین چھ ماہ کی حاملہ ہے، جبکہ تین سالہ بیٹی بھی اس کے ہمراہ تھی لہذا وہ اس عالم میں لوگوں سے مدد کی متلاشی رہی ۔ کوسین کا کہنا ہے کہ وہ شوہر کی رہائی کیلئے ماری ماری پھرتی رہی مگر اس کی شنوائی نہیں ہوئی۔

کوسین کو پاکستانی حکام سے بھی گلہ ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کےشوہر کی گرفتاری کی خبر 28جولائی سے میڈیا میں گردش کررہی ہے۔ لیکن ابھی تک اس پر نوٹس نہیں لیا گیا۔ کوسین کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستانی سفارت خانے میں بھی رابطہ کیا تھا جہاں سے اسے پتہ چلا کہ عید الفطر کے بعد رمیز کو سعودی قانون کے مطابق قاضی کے سامنے پیش کیا جائے گا مگرنہ تو اس کا کوئی دن اور تاریخ متعین ہے اور نہ ہی اسے یہ پتہ ہے کہ کیس آگے کیارخ اختیار کرے گا۔

کوسین کوسفارت خانے کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ انہوں نے اس کیس کی کارروائی کی غرض سے کاغذات متعلقہ حکام کو بھجوادیئے ہیں، لیکن آگے کیا ہوگا اس کے بارے میں کوسین فکر مند ہے۔

اُدھر رمیز کی والدہ بیٹے کےغیر یقینی مستقبل پر غم سے نڈھال ہیں۔ بیٹے کی جدائی نے ماں کو بیمار کردیا ہے۔ انہوں نے بھی حکومت سے گزارش کی ہے کہ رمیز کی رہائی کے لئے جلد از جلد کوشش کریں ، ان کا بیٹا بے قصور ہے۔

رمیز کے والد کا کہنا ہے کہ ان کا ہوٹلز کا کاروبار ہے اور اللہ کا دیا سب کچھ ہے ، رمیزچوری کیوں کرے گا۔ ایسا محض غلط فہمی کی بنیاد پرہوا ہے۔ حکومت اور پاکستانی سفارت خانہ رمیز کی رہائی اور اسے بے قصور ثابت کرنے میں ہماری مدد کرے۔

دوسری جانب، جدہ میں مقیم پاکستانی قونصل جنرل محمد سالک کے مطابق سعودی قانون کے مطابق حرم کی حدود میں کوئی چیز اٹھانا سعودی قانون کی رو سے جرم تصور کیاجاتا ہے۔ تاہم، اگر کوئی غلط فہمی ہوئی ہے تو رمیزکی رہائی کے لئے سعودی وزرات خارجہ کو خط لکھ دیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے یہی موقف اختیار کیا گیا ہے کہ رمیز بے گناہ ہے۔ تاہم، کیس کا فیصلہ سعودی حکام ہی کریں گے۔

کوسین نے وی او اے کو بتایا کہ سعودی پولیس ان کو شوہر سے ملنے تک کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ بہت منت سماجت کے بعد صرف ایک ملاقات ممکن ہوئی۔ کوسین چاہتی ہیں کہ ان کے شوہر کوجلد از جلد وطن واپس لانے میں حکومت کوئی کثر باقی نہ چھوڑے۔
XS
SM
MD
LG