رسائی کے لنکس

معیشت کی بحالی مسلم لیگ ن کی اولین ترجیح


ڈاکٹر اشفاق حسن خان (دائیں جانب) ایک بین الاقوامی کانفرنس میں
ڈاکٹر اشفاق حسن خان (دائیں جانب) ایک بین الاقوامی کانفرنس میں

ایک انٹرویو میں ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے تجویز دی کہ یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئی ایم ایف سے کب مذاکرات کرنے ہوں گے، ٹیکس اصلاحات کا ایجنڈا کیا ہونا چاہیئے، امیر اور بااثر افراد سے ٹیکس وصول کیے جائیں اور زراعت کے شعبے میں جو آمدنی ہو رہی ہے اُسے براہ راست ٹیکس نیٹ میں لایا جائے

پاکستان میں اب جب کہ انتخابات کے بعد نئی حکومت انتظام سنبھالنے والی ہے ملک کو درپیش سنگین مسائل میں ایک بڑا مسئلہ معیشت کی بحالی کا ہوگا۔ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی زبردست کامیابی کے بعد یہ واضح ہے کہ مسٹر نواز شریف ہی ملک کے نئے وزیر اعظم ہوں گے۔

اِس سے پہلے بھی وہ دو مرتبہ اِس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ کبھی بھی اپنی میعاد مکمل نہیں کر سکے اور پہلی مرتبہ مبینہ بدعنوانی کے الزام میں اُن کی حکومت برطرف کردی گئی، جب کہ دوسری مرتبہ جنرل پرویز مشرف نے اُن کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔مسٹر نواز شریف نے حالیہ انتخاب جیتنے کے بعد ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اُن کی اولین ترجیح معیشت کی بحالی ہوگی۔

پاکستان کے ایک ممتاز ماہرِ معاشیات، ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے ’وائس آف امریکہ‘ سے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اِس سلسلے میں مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔

اُنھوں نے الزام لگایا کہ، بقول اُن کے، پچھلی حکومت کے دوران معیشت حکومت کی ترجیح میں شامل نہیں تھی۔ تاہم، اِس مرتبہ حکومت کی اولین ترجیح معیشت ہے اور اب جو بھی ٹیم ہوگی، وہ اُن کے اپنے الفاظ میں، نسبتاً تجربہ کار اور بہتر ہوگی۔

اُنھوں نے توجہ دلائی کہ ایک اچھی ٹیم کو اگر سیاسی حمایت اور حوصلہ افزائی حاصل ہو تو پھر اچھے نتائج کی امید کی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر اشفاق نے تجویز دی کہ یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئی ایم ایف سے کب مذاکرات کرنے ہوں گے، ٹیکس اصلاحات کا ایجنڈا کیا ہونا چاہیئے، امیر اور بااثر افراد سے ٹیکس وصول کیے جائیں اور زراعت کے شعبے میں جو آمدنی ہورہی ہے اُسے براہ راست ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔

اِسی طرح، بہت سے سروسز سیکٹر کو بھی اس نیٹ میں لانا ضروری ہوگا۔ ساتھ ہی، صوبوں پر بھی لازم ہوگا کہ وہ ٹیکسوں کی وصولی کے سلسلے میں اپنے وسائل کو متحرک کریں۔

ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے جو ماضی میں حکومت کی وزارتِ خزانہ میں مشیر بھی رہ چکے ہیں، یہ بھی تجویز دی کہ ’سبسڈی‘ پر جو ڈفینس بجٹ سے زیادہ ہے، نظرثانی کی جائے۔اُنھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اسٹیل ملز اور پی آئی اے جیسے ادارے ، اُن کے بقول، تباہ کوچکے ہیں اور یہ سب معاملات بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔

بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات کے حوالے سے اُنھوں نے اِس جانب توجہ دلائی کہ براہِ راست بیرونی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قومی سطح پر سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے، تاکہ وہ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے ایک مثال ثابت ہو اور اُن کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔

تفصیل سننے کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:


please wait

No media source currently available

0:00 0:00:00 0:00
XS
SM
MD
LG