رسائی کے لنکس

جنرل مک کرسٹل کی بے باکی کے عوامل کیا تھے؟


صدربراک اوباما نے افغانستان میں امریکی کمانڈر، جنرل مک کرسٹل کو برطرف کر دیا جب انھوں نے اور ان کے اسٹاف نے ان کی انتظامیہ کے عہدے داروں کے بارے میں گستاخانہ تبصرے کیے۔ یہ تبصرے ایک رسالے کے مضمون میں شائع ہوئے۔ لیکن آخر یہ اہانت آمیز کلمات کیوں ادا کیے گئے؟ ہو سکتا ہے کہ ان تبصروں سے افغانستان کی جنگ میں امریکہ کے رول کے بارے میں گہری مایوسی اور عدم اطمینان کا اظہار ہوتا ہو۔

جنرل اسٹینلی مک کرسٹل اور ان کے مددگار افسروں نے ایک رسالے رولنگ اسٹون کے رپورٹر کی موجودگی میںجو باتیں کہیں وہ بڑی گستاخانہ اور سخت ہیں۔ قومی سلامتی کے مشیر، جنرل جیمز جونز کو مسخرہ کہا گیا۔ نائب صدر بائڈن کے بارے میں اہانت آمیز کلمات ادا کیے گئے اور خود جنرل میک کرسٹل نے افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی مندوب رچرڈ ہالبروک کا ذکر بڑی حقارت سے کیا جب انھوں نے بتایا کہ ان کی طرف سے ایک اور ای میل ملی ہے۔ انھوں نے افغانستان میں امریکہ کے سفیر، کارل ایکنبیری کے بارے میں بھی توہین آمیز باتیں کہیں۔

بعض تجزیہ کاروں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ جنرل میک کرسٹل اور ان کے مددگار افسران ان سویلین اختیارات کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہوں جو فوج کے بعض ارکان کو حاصل ہیں۔ لیکن ریٹائرڈ جنرل بیری میک کیفرے کہتےہیں کہ وہ جھنجھلاہٹ اور ناراضگی کا اظہار کر رہے تھے ۔ یہ ان کی بد قسمتی تھی کہ اس وقت ایک رپورٹر بھی موجود تھا۔ ان کے مطابق ’’وہ جس پالیسی کے تحت کام کر رہے ہیں اس کے خطوط واضح نہیں ہیں، وہ بے ربط اورمبہم ہے ۔ مثلاً یہ کہ سفیر ہالبروک کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ سفیر ایکنبیری کے فرائض کیا ہیں اور اس پورے عمل میں جو اور بہت سے کردار سرگرم ہیں ، وہ کس کو جوابدہ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان پر ناراضگی اور غصہ غالب آ گیا۔ پھر وہ یہ بھول گئے کہ وہ کوئی کمانڈوز کا گروپ نہیں ہیں جو میرین فوجیوں یا ایسے ہی کسی گروپ کی برائی کر رہے ہیں۔ وہ اپنے سے اعلیٰ مرتبے کے لوگوں کے بارے میں بات کر رہے تھے‘‘۔

رولنگ اسٹون کے مضمون سے جنگ کے بارے میں غصے اور ناراضگی کا تاثر پیدا ہوتا ہے جس کی قیمت جنرل میک کرسٹل کو اپنی ملازمت کی شکل میں ادا کرنی پڑی۔ جنرل میک کرسٹل کے چیف آف آپریشنز، میجر جنرل بل مےولے کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کے نزدیک جب افغانستان میں جنگ ختم ہوگی تو اسے کسی لحاظ سے جیت قرار نہیں دیا جا سکے گا۔

افغانستان کی حکمت عملی کی تیاری کا کام پالیسی کے ایک طویل جائزے کے بعد 2009 ء میں مکمل ہوا تھا۔ اس حکمت عملی میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں اضافے کے لیے مزید 30 ہزار امریکی فوجیوں کی آمد کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اگر ہرچیز منصوبے کے مطابق ہوتی رہی تو اگلے سال جولائی میں فوجوں کی واپسی شروع ہو سکتی ہے۔

لیکن باغیوں کے حملوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی نیٹو اور امریکہ کے فوجیوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جنوب کے شہرمارجہ میں جو آپریشن شروع کیا گیا تھا وہ ختم ہونے کو نہیں آتا۔ ایک اور بڑی کارروائی میں جو قندھار میں شروع ہونے والی تھی تاخیر ہو گئی ہے۔ افغان حکومت بدستور بدعنوانیوں میں ملوث ہے۔ صدر حامد کرزئی طالبان کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت کی کوئی راہ نکالنے کی کوشش کر رہےہیں لیکن طالبان نے یہ بات محسوس کر لی ہے کہ ان کا پلہ بھاری ہے اور انہیں مصالحت کی بات کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

ایک مضمون کی وجہ سے شروع ہونے والے اس جھگڑے میں صرف صدر کرزئی کی ذات ہے جس نے کُھل کر جنرل مک کرسٹل کی حمایت کی ہے۔

جنرل مک کرسٹل کی جگہ ڈیوڈ پیٹریاس کے تقرر کا اعلان کرتے ہوئے، صدر اوباما نے اپنی حکمت عملی کا اعادہ کیا اور کہا کہ وہ اپنی قومی سلامتی کی مکمل ٹیم سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اس کی حمایت کرے گی ۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم طالبان کا زور توڑ دیں گے۔ ہم افغانستان کو مضبوط بنائیں گے۔ ہم القاعدہ اور اس کی قیادت پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہیں گے، افغانستان اور پاکستان کی صلاحیت میں اضافہ کریں گے تا کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔ گذشتہ موسمِ خزاں میں ہم نے اس حکمت عملی پر اتفاق کیا تھا۔ ہم افغانستان اور پاکستان میں اسی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں‘‘۔

لیکن یو ایس آرمی وار کالج کے پروفیسر لیری گڈسن کہتے ہیں کہ یہ کوئی ایک حکمت عملی نہیں ہے بلکہ یہ بہت سی حکمت عملیوں کو یکجا کرنے کی کوشش ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا ایک پہلو انسداد دہشت گردی ہے۔ مملکت کو مضبوط بنانا اور بغاوت کا انسداد دوسرا پہلو ہے۔ روایتی جنگی کارروائیاں جن میں بڑی تعداد میں سپاہیوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک اور پہلو ہے۔ لیکن ان تمام چیزوں کے لیے مختلف قسم کے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور انتہائی اہم بات یہ ہے کہ وقت کا مختلف دورانیہ درکار ہوتا ہے۔

گڈسن کہتے ہیں کہ رولنگ اسٹون میں جو تبصرے شائع ہوئے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمت عملی کے بارے میں بحث اب بھی جاری ہے.

جنرل پیٹریاس اور جنرل مک کرسٹل دونوں نے میدان جنگ میں اپنی صلاحیتوں اور اپنی جرأت کا سکہ منوایا ہے۔ لیکن تجزیہ کار متفق ہیں کہ جہاں تک بیوروکریٹک جنگ کا تعلق ہے، جنرل میک کرسٹل کے مقابلے میں جنرل پیٹریاس کہیں زیادہ مشاق ہیں۔

XS
SM
MD
LG