رسائی کے لنکس

’’افغانستان میں میڈیا کے لیے نئے ضابطوں پر غور‘‘


’’افغانستان میں میڈیا کے لیے نئے ضابطوں پر غور‘‘
’’افغانستان میں میڈیا کے لیے نئے ضابطوں پر غور‘‘

افغانستان میں اقوام متحدہ کے سبکدوش ہونے والے نمائندے کائی ایڈا نے کہا ہے کہ جن واقعات سے افغانستان کے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں، ان کے بارے میں انہیں معلومات حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔

افغانستان کی حکومت بعض نئے ضابطوں پر غور کر رہی ہے جن کے تحت میڈیا کی طرف سے عسکریت پسندوں کے حملوں کی براہ راست رپورٹنگ پر کچھ پابندیاں لگ جائیں گی۔ تا ہم حکومت پر ان ممکنہ پابندیوں کے خلاف بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے دباو پڑ رہا ہے۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے سبکدوش ہونے والے نمائندے کائی ایڈا نے کہا ہے کہ جن واقعات سے افغانستان کے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں، ان کے بارے میں انہیں معلومات حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گذشتہ ماہ کابل میں شدت پسندوں نے جس دیدہ دلیری سے حملہ کیا تھا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقامی میڈیا کو کتنی مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ ایک طرف میڈیا کو لوگوں کو معلومات فراہم کرنی ہیں، اور اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی رکھنا پڑتا ہے کہ جس واقعے کو کوَر کیا جا رہا ہے اس میں مداخلت نہ ہو۔ افغان حکومت نے مقامی میڈیا کی لائیو کوریج پر تنقید کی اور کہا کہ اس سے جائے واردات پر موجود پولیس اور رپورٹرز دونوں کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔

افغان جنرل عبد الہادی خالد نے وائس آف امریکہ سے کہا کہ ان کے خیال میں معاشرے کو آزاد پریس سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ اپنی جگہ ہیں ،لیکن لائیو کوریج کی وجہ سے صورت حال سے نمٹنے میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں وہ کہیں زیادہ سنگین ہیں۔عام طور سے آپ حملہ آوروں کے ایک چھوٹے سے گروپ کو دیکھتے ہیں لیکن عسکریت پسندوں کی بہت بڑی ٹیم پس منظر میں موجود ہوتی ہے ۔ جنرل خالد کا کہنا ہے کہ’’ مثلاً دو، تین یا پانچ آدمی سامنے ہوتے ہیں، اور پندرہ یا بیس آدمی پیچھے چھپے ہوتے ہیں۔ ایک آدمی اشارہ کرتا ہے،معلومات اکٹھی کرتا ہے، ایک علاقے کی نگرانی کر رہا ہوتا ہے، ایک آدمی معلومات دوسروں تک پہنچا رہا ہوتا ہے۔ معلومات پہنچانے کے بہت سے ذرائع ہیں، لیکن یہ کام زیادہ تر ٹیلیفون سے لیا جاتا ہے‘‘۔

وہ 2008ء میں بھارت کے شہر ممبئی میں دہشت گردوں کے حملے کا ذکر کرتے ہیں جہاں تین دن کے حملوں میں، 200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں پر تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ لوگ حملے کے مقام کا لائیو کوریج ٹیلیویژن کی خبروں میں دیکھتے تھے اور پھر تمام معلومات موبائل ٹیلیفون کے ذریعے دوسرے مسلح افراد تک پہنچا دیتے تھے۔

کائی ایڈا نے افغانستان کے لیے اقوام متحد ہ کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے اپنی آخری نیوز کانفرنس میں کہا کہ جمہوری نظام میں رہنے والے لوگوں کا یہ حق ہے کہ انہیں حقائق سے با خبر رکھا جائے ۔ انھوں نے کہا کہ میں میڈیا کی آزادی اور لوگوں کے اس حق پر یقین رکھتا ہوں کہ انھیں ان واقعات سے باخبر رکھا جائے جن سے ان کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔

افغان صحافیوں کی یونین کے صدر رحیم ا للہ سمندر ان خیالات سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کابل میں رہنے والے لوگ، ان حملوں کے دوران نہ دھماکوں کی آوازوں سے بچ سکتے ہیں اور نہ افواہوں سے۔ان کے مطابق ’’جیسے ہی دھماکے کی آواز آتی ہے، لوگ اپنے ٹیلیویژن اور ریڈیو آن کر دیتے ہیں اور انہیں پتہ چل جاتا ہے کہ کیا ہورہا ہے۔ میں ہر طرف اپنے گھر کے لوگوں کو تلاش کر رہا ہوں۔ اگر مجھے صحیح صورت حال کا علم نہ ہو تو مجھے کتنی پریشانی ہوگی۔ مجھے اپنے رشتے داروں اور اپنے دوستوں کی فکر ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے واضح اور اور متوازن تصویر ملے جو میڈیا ہی فراہم کر سکتا ہے‘‘۔

بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں افغان انٹیلی جینس کے عہدے داروں نے انتباہ کیا ہے کہ اب وہ موقعہ واردات سے لائیو رپورٹنگ نہیں کر سکیں گے۔ لیکن صدارتی ترجمان، وحید عمر نے ان رپورٹوں کی تردید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت پولیس اور صحافیوں کی حفاظت کے لیئے بعض ضابطے بنا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہمیں امید ہے کہ یہ کام خوش اسلوبی سے انجام دیا جا سکتا ہے تا کہ معلومات تک رسائی میں خلل نہ پڑے اور میڈیا کی جائے وقوع پر موجودگی پربھی پابندی نہ لگے‘‘۔

Committee to Protect Journalists کے ایشیا پروگرام کے کو آرڈینیٹر، باب ڈیٹز کہتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کے حملوں جیسے واقعات کا لائیو کوریج بہت اہم ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ صحافیوں کو خود اپنے لیے رہنما اصول بنانے چاہئیں تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسے واقعات کی رپورٹنگ ذمہ دارانہ طریقے سے کی جائے ۔

ڈیٹز نے اس سلسلے میں افغانستان کے ہمسایے ، پاکستان کی مثال دی۔ وہاں صحافیوں نے گذشتہ سال کے آخر میں عسکریت پسندوں کے حملوں کو کور کرنے کا ضابطہء اخلاق ترتیب دیا ۔ انھوں نے اتفاق کیا کہ وہ جائے وقوع سے لائیو تصویریں نہیں دکھائیں گے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’کبھی کبھی اس ضابطے کی خلاف ورزی ہو جاتی ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ لیکن عام طور سے لوگوں نے اپنی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ یہ بات صحافیوں کو سیکیورٹی ایجنٹوں نے نہیں بتائی، بلکہ خود انھو ں نے اپنی گائڈ لائن بنائی ہے بجائے اس کے کہ حکومت پریس کی آزادی پر پابندیاں عائد کرے‘‘۔

رحیم اللہ سمندر کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم جو دو ہزار صحافیوں کی نمائندگی کرتی ہے، افغان حکومت سے ملنے اور نئی گائڈ لائنز پر بات چیت کے لیئے تیار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہتر یہی ہو گا کہ افغان حکومت کے عہدے دار سینیئر صحافیوں سے یا میڈیا کے مالکان سے بات کریں ۔ اگر ان کے ذہن میں رپورٹنگ کے اسٹائل میں تبدیلی کی کچھ تجاویز ہیں، تو وہ انہیں وزارت ِ اطلاعات اور ثقافت کی وزارت کے ذریعے صحافیوں کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔

2001ء میں طالبان کی قیادت میں کام کرنے والی حکومت کے زوال کے بعد، اگرچہ میڈیا کی تنظیموں کی بھر مار ہو گئی ہے، لیکن سمندر کو شکایت ہے کہ رپورٹوں کو سرکاری عہدے داروں کی طرف سے کوئی تعاون نہیں ملتا۔وہ کہتے ہیں کہ بہت سے موقعوں پرحکومت نے سیکورٹی کےنام پر، بعض علاقوں میں میڈیا پر پابندیاں عائد کی ہیں۔

XS
SM
MD
LG